مُسافر حوصلہ رکھنا_______عمر

مُسافر حوصلہ رکھنا، سفر کی حد نہیں ہوتی، کوئی سرحد نہیں ہوتی





پسنی – 1

مسافرت کے پڑاؤ میں پسنی میں قیام سے جُڑی یادیں ماضی سے زیادہ مستقبل کی اس امکاناتی جنت کی تصویر بناتی ہیں، جسکے لئے یوٹوپیا سے بہتر لفظ موجود نہیں۔

سائیں۔
یہی اسکا نام، کام اور پہچان بھی تھی۔ خانِ ساماں، باورچی، ویٹر، خدمت گار۔ سائیں ہر روپ میں حاضر باش تھا۔

کُچھ نسلیں اُداس ہونے کے باوجود، محبت اور خدمت کے راز کو پا جایا کرتی ہیں۔ کُچھ قبیلے اپنی بقا و فنا کی مٹّی میں انسانیت کے ساتھ ساتھ وفا کا جوہر اور احساس کی نمو بھی رکھتے ہیں۔ کُچھ افراد کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ عمل عِلم سے برتر کیوں ہے، اور عبادت کا عِباد سے کیا رشتہ ہے۔
سائیں کی میٹھی سندھی نُما اُردو  سے ہم نے محبت کے ہجے سیکھے، خود سپردگی کی کیفیت کو جانا اور دامِ خیال کے حلقے سے باہر کے عالم کو پہچانا۔

پسنی کی یادوں کے ورق ورق پر جلی حروف میں لکِھے نام یادوں کی تسبیح کے وہ دانے ہیں، جن کے بغیر ذکر مکمل نہیں ہوتا۔ یادوں سے پچھتاوے بھی جُڑے ہوا کرتے ہیں۔ پچھتاووں سے اسباق۔
گھُپ اندھیری رات میں ہوائی اڈے کے رن وے پر گاڑی کی ہیڈ لائٹس بند کر کے ایک سو چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار ، رخشِ عمر کی رو کے ساتھ ساتھ ایک عدد انسانی جان کی قیمت بھی ہے۔ ویسے ہی جیسے کوئٹہ کی ایک سہ پہر گاڑی کی ریورس کی گئی تیزی کا عقب میں کھیلنے والی ایک ننھی جان کی عاقبت کے ساتھ ملاپ۔

ہر ایک ذرّہ بچا کے رکھنا کہ جانے کِس دِن
زمین مٹّی کی واپسی کا سوال کر دے

وقت کی گردش زمانی اور مکانی ترتیب سے الگ، لیکن فیصلہ کُن ہے۔ یہ رسی کا وہ سِرا ہے جو گھُومتا نہیں، گُھمایا کرتا ہے۔
جو سبق بہت بعد ، آنے والے وقت نے پڑھائے، پُرانی یادوں سے بہت مِلتے جُلتے تھے۔
علاقائی اور جغرافیائی امکانات کی گھٹا ٹوپ دُھند میں ریاستوں کو تاریک راستوں پر اگر ایک سو چالیس کی رفتار سے دوڑایا جائے، یا جلدی کے ہنگام میں عقبی پالیسیوں کی سمت میں رفتار بڑھائی جائے، نتیجہ قریباً ایک ہی سا ہو گا۔
جانے کیوں ہم انفرادی واقعات کو اجتماعی کسوٹی میں نہیں پرکھتے۔۔۔۔
بیڈ مِٹن کھیلتے سمے عزیز از جان دانِش کا اصرار ، کہ سکورِنگ جاری رکھی جائے۔ مسافر بضد اور حیران ، کہ کیا پسنی میں بھی گِنتی کی جائے گی۔
”عمر بھائی، اس طرح تو گیم کھیلنے کو جی ہی نہیں چاہے گا۔”
”اور اُس طرح سکور تو ہو گا، پر گیم نہیں۔”
”گِنتی سے ہی تو کھیل کا مزہ آتا ہے۔”’
“دانش جی۔ مجھے تو یہ جگہ، یہ وقت، اور آپکے ساتھ کھیلنے کا چاؤ ہے۔ میں کھیل یا مقابلہ میں سے کھیل کا انتخاب کروں گا۔ ویسے آپکو سکورِنگ کی اجازت ہے۔”

انفرادی زندگی کی جستجو
اجتماعی خودکُشی ہو جائے گی

تقسیم کی شہادتوں کے شمار سے لے کر بی ڈی ممبرز کی گِنتی تک، سقوطِ ڈھاکہ کے جنگی قیدیوں کی تعداد سے لے کے بستی لال کمال کی نعش شماری تک، اور دہشت گردی کی جنگ کے اعداد سے لے کر کئی عام انتخابات میں ڈال کر گِنے اور گِن کر ڈالے جانے والے ووٹوں تک، ہم ستاروں سے زیادہ اعداد و شمار کی چالوں کے شکار رہے ہیں۔

* * * * *
پسنی – 2
بشر مُسافر ، حیات صحرا ، یقین ساحل ، گُماں سمندر

مسافر  ،  سمندر اور برج سرطان کی تکون استعارے سے  پُر ، مِثال سے آگے اور بیان سے باہر ہے۔

زمان و مکاں میں   بالترتیب ٹھہری ہوئی چاندنی راتوں کا وقت اور جبلِ زرّیں کا ساحل یادوں کی وہ قوس قزح  اپنے دامن میں رکھتا ہے ، جس کے رنگ پسنی کے صحرا میں دِن میں بھی دکھائی دیتے تھے۔ یہ دِن سقوطِ  قندھار کے  تھے ، اور راتیں وحشت کی ، کہ ملک ایک ایسی جنگ میں قدم رکھ رہا تھا جس نے سالوں بعد  اس  ست رنگی  میں صرف ایک رنگ چھوڑنا تھا۔
تب شاید ہمیں علم نہیں تھا کہ سُرخ رنگ جم بھی جاتا ہے۔
برسوں بعد ،  وارسک  کمپلیکس پشاور  میں  بچوں کی سبز اور سفید وردی پر جمنے والا سُرخ رنگ آج  تک نہیں اُتر پایا۔

دُنیا دُنیا گھومنے والے امریکی میرینز کہا کرتے تھے  کہ پسنی  جیسے اُجلے اور دِلگُداز  ساحل اُنہوں نے  کبھی اور کہیں  نہیں دیکھے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادی اُن  کے مشاہدے پر  اس حد تک اظہارِ حیرت کر سکتی تھی کہ   ہم نے اپنے  پسنی کے ساحل بھی نہیں دیکھے تھے۔

  عام پاکستانی کے لئے تو خیر  آج  بھی یہ  ایک بریکِنگ نیوز ہی ہو گی کہ کُل   پاکستان کا چوالیس فیصد ، بلوچستان ہے ۔  آج سے بیس سال قبل  بھی، تین صوبوں  کے نوجوانوں کو بلوچستان کے شہروں کے نام یاد کرنے میں دقت سے زیادہ فاصلہ حائل تھا ، اور دوری سے زیادہ اجنبیّت۔ آج بھی  مقابلے کے امتحانات میں یار لوگ  چونتیس اضلاع  والے  صوبے کے پانچ شہروں کے نام نہیں بتا  پاتے۔
 
پسنی  کے مکرانی ، دُنیا کے بہترین ماہی گیروں میں سے تھے۔ مسافر نے اُن کے جھینگے کو اُن کی محبت کی طرح معیاری اور اعلیٰ پایا۔

سڑکوں کے بغیر  گاڑیوں  اور بسوں کا سفر  تصور سے حقیقت وہیں بنتا ہے ، جہاں  پانی کے بغیر زندگی  موجود ہو۔ پسنی میں نازل ہونے والے نیٹو اور امریکی عسکریوں نے جب شہر کے گِرد کئی کلومیٹروں تک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ تمام موجود پانی کے ذخیروں میں پایا جانے والا سیال انسانوں اور جانوروں کے پینے کے  لئے موزوں نہیں ہے۔ یہ وہ وقت تھا ،   جب ساحلی شاہراہ نہیں بنی تھی ، اور کراچی سے گوادر  باہم فاصلے کی پیمائش کلومیٹروں کی بجائے دِنوں میں کی جاتی تھی۔

مسافر کے لئے سبز سمندروں اور سنہرے ساحلوں والا پسنی ایک دِلرُبا  یاد بھی ہے اور زندگی  کا وہ نخلستان بھی ، جہاں  سے باہر  دیکھنے پر  ہر جگہ ہی صحرا  نظر  آتی ہے۔

مِری محبت تو اِک گُہر ہے ، تیری وفا بے کراں سمندر
تُو پھر بھی مُجھ سے عظیم تر ہے ، کہاں گُہر ہے کہاں سمندر

* * * * *
…… یہ جو لاہور سے محبت ہے

مسافر کے لئے سفر شرط سے بڑھ کر فرض، اور فرض سے بڑھ کر قرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ سایہ دار شجر راہ میں سکونت کا استعارہ ہیں۔ یہاں تو تمام شہر ہی گھر ہے، ہر جھونکا مسافر نواز ہے ، ہر سایہ چھاؤں ہے اور ہر رہگذر گھر کی دہلیز۔

لاہور واحد شہر ہے، جو زندگی کی صورت سانس لیتا ہے، دِل کی مانند دھڑکتا ہے، ماں جیسی محبت وارتا ہے، اور جِگری دوستوں کی طرح پور پور وارفتگی سے پُر ہے۔

لاہور دِل والا شہر ہے۔ دِل والوں کا۔ دِل کی طرح کبھی مجذوب، کبھی آشفتہ سر۔
یہ ‘دِلچسپی’‘ والا دِل ہے۔
دِل جمعی اور دِل نوازی والا ۔
دِل گُداز، دِل کش، دِل رُبا اور دِلدار۔

داتا کی نگری مرکزِ تاریخ و روایت ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ادوار و اقوام کے مشترک ورثے کے خزانے کی اقلید ہے۔
اسلام آباد کی شام ہو، عید کا دِن ہو، چائے کا وقت ہو، اور مسافروں کا اکٹھ۔
ایسے لمحوں کو شاعر ہی الفاظ کی مالا میں پرویا کرتے ہیں۔

رنگ خوشبو صبا چاند تارے کِرن پھول شبنم شفق آبِ جُو چاندنی

ایک مسافر نے اپنی سفری روداد سنائی۔
“تعیناتی سے قبل میرا لاہور سے کبھی تعلق نہ رہا تھا۔ اور لاہور میں قیام کے بعد تعلق کے معنی میری سمجھ میں آئے۔”

مسافر کا خیال ہے کہ دِل کی دھڑکن زندگی کی لفظی، اصطلاحی اور عملی تعریف ہے۔
مسافر کا ایمان ہےکہ شُکر اور شِکوہ ، دونوں کا حجم ایک جیسا، ایک جِتنا ہوا کرتا ہے۔ دونوں ایک ہی جتنی جگہ گھیرتے ہیں۔ اور ، دِل میں بھی اتنی ہی خالی جگہ ہوا کرتی ہے ، کہ ان دونوں میں سے ایک وہاں رہ سکے۔
اور مسافر کی دُعا ہے کہ لاہور اُس شُکر، طمانیت، بے ساختگی اور دِل لگی سے پُر رہے، جو اس شہرِ بے مثال کا خاصہ ہے۔ شکوہ اس مٹی کی پہچان نہیں۔ شہیدوں کے خون سے سینچی یہ سر زمین تسلیم و رضا کی خاک سے بنی ہے۔

مِرے لاہور پر بھی اک نظر کر
……. تِرا مکہ رہے آباد مولا
* * * * *
چیچو کی ملیاں ، مُسافِر کے لئے  شیخوپورہ کے نزدیک ایک  جگہ  یا  غیر مقامیوں کے لئے مضحکہ خیز  تشبیہہ سے زیادہ مسافت کا ایک  محبت بھرا  چوراہا ہے ، جہاں  اعتماد،  پیار،  بے ساختگی اور حوصلے کی کچی سڑکیں مِلتی ہیں۔
چیچو کی ملیاں کی صُبحیں ٹیکسٹ بُک مارنِنگز تھیں ، دِن   زندگی  کی تمانیّت سے لبریز تھے،  دوپہروں میں شہروں کا بوجھل پن نہ تھا،   بچوں کی شرارتوں  سی سہ پہریں ہشاش بشاش تھیں ، شامیں  دِل رُبا اور  رومانوی تھیں ۔ اور  چاندنی  راتوں کی  حسین  خُنکی، دِل آویزی اور  خوش رنگ نظاروں کے لئے تو کوئی لفظ ایجاد ہی نہیں ہوا۔

ہم نے دیکھی ہے وہ اُجلی ساعت
رات جب شعر کہا کرتی ہے

لفظ تو  اُن دہقانوں کے لئے بھی نہیں بنے  جِن کے دِل کے آر پار دیکھا جا سکتا تھا،  اور جِن کی ہتھیلیوں کی سخت اور کُھردری جِلد  میں  پانچ دریاؤں کی  مٹی کی مہک تھی۔ جِن کی صاف باتیں دِل میں اُترتی تھیں اور جِن کی آنکھوں میں  روشن مستقبل کی  تاریک ماحولیاتی تبدیلیوں  کو پڑھ سکنے کی صلاحیت اُس وقت بھی موجود تھی۔

ساٹھ فُٹ گہری نہر   زندگی کا سرمایہ لئے بہتی تھی،  تو ساتھ ساتھ  موت کے پروانے بھی جاری  کرتی ۔ تیراکی کے  لئے کوُدنے والے کئی  نوجوان نِگل چُکی تھی ۔ عُمر نوخیز ہو ،   موقع محل موجود ہو اور دستور مفقود ہو تو   لااُبالی اور کچے فیصلے  پکے نِشان چھوڑتے ہیں۔  جیسےراولپنڈی کی مری روڈ پر ون وِیلنگ کرنے والے لڑکے بالے آزادی چاہتے ہیں ، ویسی ہی آزادی ہر نوجوان نے چاہی ہے۔

آزاد ی کی قیمت بھی ہوا کرتی ہے۔

نہر میں کوُدتے وقت     ،  سونے چاندی  جیسے اپنے والدین کے پیارے نوجوانوں کے  تصور  میں بھی نہیں ہو گا کہ اُن کی  اِس  آزادی کی  قیمت  ادا کی جا چُکی ہے۔ اس قیمت کے بقدر  ہیرے  جواہرات  کے سے  ہزاروں اجسام تقسیم کی لکیر کے دونوں جانب سینکڑوں کنؤوں  میں مدفون ہیں۔

مُسافر نہر کو ترقی  کا استعارہ سمجھتا ہے ، اور کُنوئیں کو زندگی کا۔

* * * * *
سلام   اور بُلاوا۔

سفر در سفر مُسافتوں  کے بیچ کُچھ ایسے پڑاؤ بھی آئےجو  سِکھلائی کے مکتب   بھی تھے اور  امتحان کا پرچہ بھی ۔   یہ اُس وقت کی بات ہے جب مُسافر  اُن سہاروں کے بل چلنا سیکھ رہا  تھا ،  جِن کا  علم اُس کی عمر سے  زیادہ تھا اور  عمل اُس کی سوچ سے وسیع تر۔۔۔

پہلی بار جب بڑے صاحب کا سلام  موصول ہوا ، تو مسافر نے  ہرکارے کو ایک مُسکراتا ہوا   نستعلیق جوابی  سلام  پیش کیا۔ کہنہ مشق  پیام بر نے سمجھایا ،  کہ بڑے جب بُلاتے ہیں تو سلام  بولتے ہیں ، اور جب خوش ہوتے ہیں تو  سوال کا موقع عنایت کرتے ہیں۔

“اور جواب؟”۔ مسافر نے پوچھا۔
جواب کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ بڑے  کا نہیں ، چھوٹے کا دردِ سر ہے۔ جواب تیار ، پیش اور حاضر کئے جاتے ہیں، قبولیت کی درخواست کے ساتھ  ۔ تسلیم،  رضا، یقین اور  اُمید  میں ملفوف۔

پھِر تو مُسافر  ہر آنے والے سلام پر ، لبّیک  ہو گیا۔ “ابھی آیا’‘ مسافر کے تکیہ کلام کا سابقہ بن گیا اور  ذمہ داری لاحقہ۔
ایک عقدہ بہت  دیر  میں کُھلا۔
وہ جو دِن میں بیس مرتبہ سُنائی دیتا ہے ،  وہ کامیابی کا  بُلاوہ  ہے ۔۔۔۔۔

مسافر کی تربیت میں “ابھی آیا’‘  ہر بلاوے  کا پہلا اور آخری ردِ عمل ہوا کرتا ہے۔

* * * * *
فیری میڈوز

نگری نگری پِھرا مسافر ، گھر کا رستہ بھول گیا۔۔۔

مُسافر سٹارٹ اوور کو ایک نقطۂ آغاز سے کچھ زیادہ سمجھتا ہے۔
یہ اُمیدوں کا نیا جنم بھی ہے ، دوراہے پر انتخاب کاجھمیلا بھی، گُزشتہ راستوں کی گرد باد بھی اور منزل کا قطب نُما بھی۔  پر اس سب سے زیادہ یہ ایک فرض ہے جو  نگری نگری پھرنے والوں کے عِلم، رشتوں ، آدرشوں اور خوشیوں کی قیمت ہے۔
سٹارٹ اوور ، مسافِر پر فرض کی صورت لاگو ہے، جِس کے بغیر فاصلوں  کے جھنجھٹ، مصائب،  تکالیف اور پریشانیاں   پہچانی نہیں جاتیں۔ اور یہی مُشکلات مسافر کو سفر کا اسلوب دیتی ہیں ، زندگی کے معانی عطا کرتی ہیں، قربتوں اور دوریوں کے نقش واضع کرتی ہیں۔ یہ ہر  جگہ کو گھر بنا دیتی ہیں، اور گھر کو صرف ایک جگہ۔

مسافر کے ہوش مند اور یادگار  ماہ و سال کے سفر کم و بیش چالیس بہاروں پر محیط ہیں ۔ یہ بہاریں  ہر جگہ  مسافر کو نئے زاویے ، لوگ، ماحول اور تدابیر دِکھاتی ، جتاتی اور بتاتی  رہی ہیں ۔
ہر مقام نے مسافر کو حوصلہ بخشا ہے۔  نشونما  اور آبیاری کی ہے۔ سِکھایا ہے۔ سمجھایا ہے۔
ہر وقت نے مسافر کو سوچنے پر مائل کیا ہے۔ یاد رکھنے اور یاد رہنے کا گُر دیا ہے۔

اس راہ کے کُچھ مقامات اور سنگِ میل ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔لوگوں کی صورت، باتوں کی آواز میں، نظروں کے عکس میں۔ اور ، دِل کی یادوں میں۔

رائے کوٹ  پُل سے  تتّو گاؤں تک قریباً ڈیڑھ گھنٹے پر محیط جیپ کا سفر ایک “بنجی جمپ “نُما چیلنج ہے ،  اور کُچھ ویسا  احساس بھی دیتا ہے جیسا  اُن تین آدمیوں کو درپیش تھا جو ایک بڑے سے پتھر کے  سِرک  آنے کی وجہ سے غار میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔بے بسی، عدم تحفظ اور بے یقینی کا امتزاج۔  ڈرائیور حضرات اس پُل صراط پر جیپ چلاتے وقت گزشتہ ہفتوں اور مہینوں کی  دوزخی گاڑیوں اور افراد کا ذکر کرنا نہیں بُھولتے۔  بالکل دوسری  طرف رائے کوٹ  گلیشیئر  کا  مہیب وجود اور استور جانے والا راستہ  بتلاتا ہے کہ  دوسری جانب ہمیشہ ہی  سرسبز  کیوں لگتی ہے۔

تتّو پہنچ کر علم ہوتا ہے کہ  آگے جیپ کا راستہ نہیں ہے، لہٰذا  ٹریکنگ کی جائے گی، اور سامان و خواتین خچروں کے ذریعے جائیں گے۔ یہ  مزید ڈیڑھ گھنٹے کا عمل ہے۔

تتّو پر تازہ دم ہوتے ہی مقامی افراد  نظر آتے ہیں، جن میں بچے نُمایاں ہیں۔ یہ اُس علاقےکے حورعین ہیں ، جِسے غیر ملکی مہم جوؤں نے  پریوں کے سبزہ زار کا نام دیا تھا۔ فیئری میڈوز۔
ان کے کُچھ بزرگ بھی یہاں موجود ہیں۔

تتّو کا نام  اُبلتے گرم پانی کے چشموں کی بدولت ہے۔ یہاں مسافرنے انڈا اُبال کر اس نام کی وجۂ تسمیہ کو پرکھا اور درست پایا۔ ان چشموں کا پانی مختلف بیماریوں کا علاج بھی ہے، جیسے چکوال کے  ایک علاقے کا آبِ حیات، چترال کا گرم چشمہ اور کشمیر میں تتہ پانی کا مقام۔

مسافر نے ان بزرگوں سے پوچھا کہ آپ لوگ یہاں تک سڑک کیوں نہیں بننے دیتے؟ اس طرح یہاں سیاحت بڑھے گی ۔ جواب بزرگانہ تھا ، جو ہمیشہ کی طرح اپنے  وقت پر سمجھ میں آیا۔
تتّو والوں کے بقول، یہ علاقہ آپ کے لئے سیر کی جگہ ہے ، پر یہ ہمارے لئے ٹھکانہ، آشیانہ،  کاروبار، سب کُچھ ہے۔۔۔ یہاں سڑک آئے گی تو یہ مری وغیرہ بن جائے گا۔  ہم ٹریک کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، اور اس سلسلے میں  کوشش کر رہے ہیں۔ ہم یہاں صفائی سُتھرائی کو اہمیت دیتے ہیں، اور آپ سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔

تتّو سے بہت دُور ،قصبوں اور  شہروں کی زمین ، پانی اور ہوا بھی دبے الفاظ میں یہی کہنا چاہتے ہیں۔۔

تُم پرندے کا دُکھ نہیں سمجھے
پیڑ پر گھونسلہ نہیں ، گھر تھا
_______________

تحریر از عمر

2 Comments

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.