چھوٹا سا اک گھر تھا جو دراصل اتنا بھی چھوٹا نہ تھا۔جب ہم اس میں آئے تو ابا نے بالکل نیا بنایا تھا۔ایک درخت گیراج کے ساتھ اندر کی طرف کھڑا تھا دو آم کے درخت گھر کی دوسری طرف لگے تھے۔گیلری سے اندر داخل ہوتے تو ایک طرف ڈرائینگ روم،دوسری طرف دادا جی اور بڑے بھائی کا کمرہ،مزید آگے جاتے تو آمنے سامنے اماں ابا کا اور ہم پانچ بچوں کا کمرہ ۔پھر دوسری طرف کا برآمدہ کھلتا جسکی ایک طرف کچن،سامنے صحن،صحن میں آم کے درخت! ایسا ہی گھر جیسے اسی کی دہائی میں اکثر گھر ہوتے تھے!
آم ابھی چھوٹے تھے سو بور ہی دیکھا تھا لیک باہر کی طرف ایک درخت تھا جو پھیلا ہوا تھا۔میری اس سے شدید یاری تھی کیونکہ اسکی شاخیں چھت کے اوپر سے پردوں کے اندر تک آتی تھیں جن پر پیلے پیلے لمبے لمبے خوبصورت پھول لگتے تھے۔جن سے مجھے خوب پیار تھا۔میں چھت پر اسکے ساتھ کی دیوار پر چڑھ کر بیٹھتی ،پھولوں کو دیکھتی اور جانے کیا کچھ سوچتی اور محسوس کرتی۔وہ درخت میری ایک پوری دنیا تھی اور میں۔۔میری عمر محض یہی کوئی ،پانچ،چھ سات یا آٹھ سال ہو گی۔کہ میں چھوٹی سی نکر پر فراک پہنے باہر گلی میں کھیلتی تھی اور جو مجھے “صوفہ سیٹ” کہتا اس سے لڑ پڑتی تھی۔اور میرے جسے قدامت پسند گھر میں اس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔
میرے ابا جنہیں ہم سب ابی جی کہہ کر پکارتے تھے اور ہیں گھر کے واحد جوان مرد تھے ہینڈسم، لمبے ،مضبوط ،جی دار۔ عمر تیس کے ہندسوں میں مگر چھ بچوں کے ابو ،سارا دن سرکاری دفتر میں تھک تھکا کر آتے مگر شام کو لازما بند جوگر پہنتے اور مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو لے کر مغرب سے گھنٹہ بھر پہلے باہر نکلتے۔گھر کے ساتھ کی سڑک سیدھی جاتی جس پر وہ آگے آگے تیز تیز چلتے ہم دونوں پیچھے پیچھے ہاتھ پکڑے چلتے۔یہ سڑک کم ہوتی کھیتوں کے بیچ پگڈنڈیوں میں بدلتی ریلوے لائن پر جا رکتی جہاں سے ہم مشرق کی سمت پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے۔اباجی تیز قدم اٹھاتے ایک ایتھلیٹ کی تیزی کے ساتھ ،ہم چھوٹے بچے انکے ساتھ ساتھ رہنے کی کوشش میں۔(میں نے یہ بات بہت بعد میں سیکھی کہ والدین کو ہمیشہ آگے چلنا چاہیے اس سے بچے انکی سیدھ میں چلے آتے ہیں۔میں نے بچوں پر نظر رکھنے کی کوشش میں ہمیشہ انہیں آگے چلایا تا کہ نظر میں رہیں نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کبھی سیدھے نہ چلے،دائیں بائیں آگے پیچھے ہی متوجہ رہے۔)
کبھی کبھی اس دوران ٹرین آ جاتی تو ایک طرف کھڑے ہو کر اسے گزرتے دیکھتے اور اسکی دھمک سے کانپتے۔ یہاں سے ہم دائیں مڑتے اور پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے آگے جا کر پھر ایک سڑک پر جا نکلتے۔ یہ سڑک ٹریفک اور بازار کے شور سے بھری ہوتی ۔وہاں سے ایک لمبا چکر لیتے بلآخر ایک دوسری طرف سے اپنے گھر کے قریب جا نکلتے۔یہ پورا رستہ ایک گھنٹے کا پڑتا تھا کہ ہم واپس مغرب کی ازان تک پہنچتے۔یہ رستے بھی میرے لئے ہمیشہ ایک مسٹری رہے ہیں کیونکہ میری چھوٹی عمر میں ہی ابا نے دوسرا گھر بنا لیا تھا جس میں ہم چند ہی سالوں میں شفٹ ہو گئے اور پھر وہ رستے میرے لئے ہمیشہ کسی بچپن کی کہانی کی طرح معمہ ہی رہے۔نہ کبھی ان پر واپس پلٹے نہ کبھی علم ہوا کونسےتھے کہاں تھے۔انساں جو گھر چھوڑ جائے پھر کہاں اسکی طرف پلٹتا ہے۔
یہ میرے بچپن کی ایک انتہائی رومینٹک یاد ہے۔میں نے ان رستوں سے گزر کر سڑکوں پر چلنا سیکھا،رستے کی اڑتی خاک کو بڑی دلچسپی سے دیکھا،ٹرین کی چھک چھک اور اسکے گزرنے کی دھمک سے خود کو ہلتے دیکھا،ایک طویل سیر کے فلسفے کو سمجھا اور ازبر کیا،شامیں شہروں اور قصبوں میں کیسے اترتی ہیں،خاموشی اور شور میں،چلتی سڑک اور خموش کھیتوں میں کیا فرق ہے جانا،ڈھلتے سورج گنے اور ایسی یادیں بنائیں جنہیں آج میں چالیس کی دہائی میں بھی بیٹھ کر محبت سے دہراتی ہوں اور انکا رومانس محسوس کرتی ہوں۔
۔پھر چند ہی سالوں کے اندر ہم نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔
علاقے بدل گئے مگر عادتیں اور طریقے نہیں ۔
نیا گھر کینٹ کے قریب تھا جسکے آس پاس ریت اڑاتے میدان تھے یہاں بھی ابھی گلیوں میں بھاگنے دوڑنے اور کھیلنے والے ہی دن تھے۔ایسے میں سامنے والے گراونڈ میں ہیلی کاپٹر آ اترتا،بچپن سارا صبح صبح آرمی کا بینڈ سنتے یا ٹرینگ کی آوازیں سنتے گزرا۔یہاں بھی یہی عادات رہیں کہ ابا جی صبح صبح چھ بجے کی واک پر نکلتے تو پھر ہم دونوں کو ساتھ لے لیتے۔یہاں ہم مصروف سڑکوں سے ہوتے خواجہ فرید بوائے کالج جا پہنچتے جس کا ایک بہت بڑا گراونڈ تھا جس میں صبح سویرے واک کے شوقین واک اور رننگ کرتے پھرتے۔وہاں پہنچ کر ہمیں والد صاحب تنہا چھوڑ دیتے اور خود بھاگنے لگتے ہم سے اس خالی سے بوررننگ میدان میں مشکل سے ایک آدھ ہی چکر لگتا پھر ہم دونوں پھرتے پھراتے پھولوں والے گراونڈ میں جا پہنچتے!
میں نے اپنی ذندگی کی پہلی بہاریں ان گراونڈز میں دیکھیں۔ چاروں طرف کیاریاں اتنے خوبصورت بڑے بڑے رنگ برنگے گلابوں سے لدی ہوتیں۔افففف کیا ہی خوبصورت نظارہ ہوتا۔وہاں پھولوں کو دیکھتے انکی گرد گاتے گنگناتے،اس میں لگے پتھر کے بینچوں پر ہم والد صاحب کی نقل میں تھوڑی ورزشیں کرتے۔اور انکی مارننگ واک ختم ہونے پر شاداں و فرحاں انکے ساتھ لوٹتے۔
میں نے وہ سبز گھاس سے بھرے بڑے بڑے گراونڈ جنکے گرد گلابوں سے بھری کیاریوں کا پہرہ تھابھی دوبارہ نہیں دیکھے مگر وہ نظارے آج بھی میری یادداشت میں سو فیصد زندہ و جادواں ہیں جب میں محض ذندگی کی پہلی دہائی میں تھی۔
رستے کی چھوٹی چھوٹی چیزیں،چھوٹی چھوٹی باتیں جنہوں نے ہماری ذندگی کا رخ متعین کیا۔ابا جی کے ساتھ کی ان سیروں کی تاثیر ہے کہ ذندگی کا بڑا حصہ اسی کی پریکٹس میں گزرا۔عمر بھر واک،ورزشیں ذندگی کا حصہ رہا۔شامیں دھندلکے،ڈوبتے اور ابھرتے سورج،رنگ،خوشبو،پھول یادیں ذندگی کا ایک اہم جز بن گئے اور یہ سب اتنی خموشی سے ہوا کہ نہ سکھانے والے کو خبر ہوئی نہ سیکھنے والوں کو پتا چلا۔کب ہم نے چھوٹی چھوٹی چیزوں اور باتوں کو اپنی ذندگیوں کا حصہ بنانا شروع کر دیا۔ ذندگی میں، دھیان میں،مصروفیات میں اتنا سکون تھا کہ پتے بھی ہلتے تو یادداشت میں رہ جاتے!
آج میرے بچے الحمداللہ جواں ہو رہے ہیں اور میں سوچتی ہوں کیا آج سے بیس تیس سال بعد انکے پاس ذندگی کی کوئی خوبصورت پھولوں بھری،رنگوں بھری مسٹری بھری کوئی چھوٹی سی یاد ہو گی؟
ہم جو ٹرین بھئ دیکھتے ہیلی کاپٹر بھی،کھیت بھی اور گلاب کے پھول بھی اور ہمارے بچے جو باہر کی سڑک تک نہیں دیکھتے۔ جنکو نہ چلتی کار متوجہ کرتی ہے نہ اڑتا راکٹ،نہ گرجتے بادل نہ چمکتی بجلی!انکی دلچسپی صرف اسکریں سے وابستہ ہے۔
اس نسل کو دیکھیں تو لگتا ہے ہم کسقدر بوڑھے ہو گئے ہیں ہمارے بچے ہماری اگلی نسل نہیں لگتی۔ان دو نسلوں کے بیچ جیسے صدیوں کا فاصلہ آ گیا ہےاور ہم لوگ صدیوں جتنے بوڑھے ہو گئے ہیں جو اپنی یادداشتوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں لئے بیٹھے ہیں۔اب کسی کو مور کے پر میں،ایک پھول میں یا ایک شبنم میں پوری کائنات نظر نہیں آتی۔
اب کسی کو کھلتی کلیوں،جھڑتے پھولوں کی پرواہ نہیں رہی۔ہماری آنے والی نسل اپنے آس پاس کی ہر اک چھوٹی چیز سے بے نیاز ہو چکی ہے چاہے وہ چڑیا ہو،پتھر ہو،گلی ہو کہ رستہ!انہیں صرف اپنے ہاتھ میں پکڑے جادو کے چراغ سے غرض ہے اور یہی اب انکی ساری کائنات ہے!جسے ہم موبائل کہتے ہیں۔تتلیوں اور بدلیوں کی بات کرنے والی شاید ہم آخری نسل رہ گئے ہیں۔ہمارے بعد یہ باتیں صرف چیٹ جی بی ٹی بتائے گا وہ بھی محض ضرورتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں اب اپنی تاثیر کھو بیٹھی ہیں ۔ہمارے بچے اب دو گھڑی نچلا نہیں بیٹھ سکتے،دو منٹ انکو تنہا بٹھا دو تو انہیں مایوسی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔گھر سے باہر نکال کر کھڑا کر دو تو دور دور تک انہیں ویرانہ دکھائی دیتا ہے۔انہیں اسکریں کی ذندگی سے غرض ہے۔انکے دماغ سو کلو میٹر کی اسپیڈ سے ہر لمحہ بھاگنا چاہتے ہیں زندگی کی سست روی انکو اضطراب میں مبتلا کر دیتی ہے۔محض ایک اسکرین کی ارزانی نے ہماری نسلیں ہم سے صدیوں دور کر دی ہیں۔ہماری عادتیں اور رویے ہماری اگلی نسل تک نہیں پہنچ سکے۔مجھے ڈر ہے کہ ہم پرانے زمانے کے لوگ ہو گئے ہیں جو صرف داستانیں بنکر رہ جائیں گے!
__________________<
صوفیہ کاشف
28 فروری 2024
۔

Lovely…
LikeLiked by 1 person
نوازش!
LikeLiked by 1 person
“Few people know how to take a walk. The qualifications are endurance, plain clothes, old shoes, an eye for nature, good humor, vast curiosity, good speech, good silence and nothing too much.”
(Ralph Waldo Emerson)
LikeLiked by 1 person
Brilliant
LikeLiked by 1 person
آج میرے بچے الحمداللہ جواں ہو رہے ہیں اور میں سوچتی ہوں کیا آج سے بیس تیس سال بعد انکے پاس ذندگی کی کوئی خوبصورت پھولوں بھری،رنگوں بھری مسٹری بھری کوئی چھوٹی سی یاد ہو گی؟
ہم جو ٹرین بھئ دیکھتے ہیلی کاپٹر بھی،کھیت بھی اور گلاب کے پھول بھی اور ہمارے بچے جو باہر کی سڑک تک نہیں دیکھتے۔ جنکو نہ چلتی کار متوجہ کرتی ہے نہ اڑتا راکٹ،نہ گرجتے بادل نہ چمکتی بجلی!انکی دلچسپی صرف اسکریں سے وابستہ ہے۔
اس نسل کو دیکھیں تو لگتا ہے ہم کسقدر بوڑھے ہو گئے ہیں ہمارے بچے ہماری اگلی نسل نہیں لگتی۔ان دو نسلوں کے بیچ جیسے صدیوں کا فاصلہ آ گیا ہےاور ہم لوگ صدیوں جتنے بوڑھے ہو گئے ہیں جو اپنی یادداشتوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں لئے بیٹھے ہیں۔اب کسی کو مور کے پر میں،ایک پھول میں یا ایک شبنم میں پوری کائنات نظر نہیں آتی۔
اب کسی کو کھلتی کلیوں،جھڑتے پھولوں کی پرواہ نہیں رہی۔ہماری آنے والی نسل اپنے آس پاس کی ہر اک چھوٹی چیز سے بے نیاز ہو چکی ہے چاہے وہ چڑیا ہو،پتھر ہو،گلی ہو کہ رستہ!انہیں صرف اپنے ہاتھ میں پکڑے جادو کے چراغ سے غرض ہے اور یہی اب انکی ساری کائنات ہے!جسے ہم موبائل کہتے ہیں۔تتلیوں اور بدلیوں کی بات کرنے والی شاید ہم آخری نسل رہ گئے ہیں۔ہمارے بعد یہ باتیں صرف چیٹ جی بی ٹی بتائے گا وہ بھی محض ضرورتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں اب اپنی تاثیر کھو بیٹھی ہیں ۔ہمارے بچے اب دو گھڑی نچلا نہیں بیٹھ سکتے،دو منٹ انکو تنہا بٹھا دو تو انہیں مایوسی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔گھر سے باہر نکال کر کھڑا کر دو تو دور دور تک انہیں ویرانہ دکھائی دیتا ہے۔انہیں اسکریں کی ذندگی سے غرض ہے۔انکے دماغ سو کلو میٹر کی اسپیڈ سے ہر لمحہ بھاگنا چاہتے ہیں زندگی کی سست روی انکو اضطراب میں مبتلا کر دیتی ہے۔محض ایک اسکرین کی ارزانی نے ہماری نسلیں ہم سے صدیوں دور کر دی ہیں۔ہماری عادتیں اور رویے ہماری اگلی نسل تک نہیں پہنچ سکے۔مجھے ڈر ہے کہ ہم پرانے زمانے کے لوگ ہو گئے ہیں جو صرف داستانیں بنکر رہ جائیں گے!
ماشاءاللہ سچی اور کھری تحریر۔ موبائل اور چیٹ جی پی ٹی نے بچوں کو جکڑ رکھا ہے۔ میں سمجھتا تھا صرف امریکہ کینیڈا انگلینڈ کے بچے موبایل سے جڑے ہوے ہیں
LikeLiked by 1 person
جتنے پاکستان کے بچے ان سے جڑے ہیں اتنے تو ہمارے بھی نہیں ہیں۔
LikeLiked by 1 person