تزئین فرید:
سب مذہبی جماعتوں کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں!
گزشتہ سے پیوستہ
ہمارے جیسی پڑھے لکھے اپر مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جو اپنی طالب علمی میں تحریک اور لٹریچر سے متاثر ہو کر اپنی مرضی سے نقاب یا پردہ اختیار کرتی ہیں، ہمارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم عورتوں کے مسائل کو اپنے طبقے کے لینس سے دیکھنے کے عادی ہوتےہیں-
جی ہاں اپنے طبقے کا لینس!
گو روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ سخت پردے کے نقصانات میں پڑھے لکھے گھرانے میں شادی نہ ہونا یا تعلیم کے مطابق ملازمت نہ ملنا بھی شامل ہوتا ہے- لیکن پچھلی تین دھائیوں کے میرے ذاتی مشاہدات کے مطابق پڑھے لکھے خاندانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ قابل لڑکیوں کو ایسے نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑا- انکی شادیاں بھی ہوئیں اور انکی ملازمت کی راہ میں پردے سے زیادہ رکاوٹ روایتی مذہبی اور معاشرتی بیانیہ بنا جس نے ورکنگ عورت کوگھر کے کام میں کوئی بھی سہولت حاصل نہیں کرنے دی- (اس مدے پر انشا الله کبھی تفصیل سے بحث کریں گے)
باقی میری رائے میں ان بچیوں کوعملی ازدواجی زندگی میں دین پر عمل کے باوجود جو مشکلات آئیں انکا بھی پردے سے تعلق نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ وہ چہرے پر نقاب ہونے کے باوجود قیدی کی زندگی نہیں گزارتیں- ملازمت نہ بھی کر رہی ہوں تو انکے گھر سے نکلنے شاپنگ کرنے، گروسری کرنے، سماجی زندگی میں ایکٹو رہنے، دینی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر کم ہی کوئی قدغن لگتی ہے اور اگر لگتی ہے تو اسکا تعلق پردے سے نہیں ہوتا-
پردے سے وابستہ ہمارے طبقے کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہوتی ہے کہ کسی نے کسی موقع پر ہمارے پردے کا مضحکہ اڑایا ہوتا ہے- ایسا کوئی واقعہ اگر زندگی میں دو چار بار بھی وقوع پزیر ہو گیا تو ہمارے لئے یہ اس بات کا ثبوت بن جاتا ہے کہ پردے کی وجہ سے ہمیں تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمارا مضحکہ اڑایا جاتا ہے-
حالانکہ آج بڑی تعداد میں پاکستان اور پاکستان سے باہر اس طبقے کی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کا لوہا پردے کے ساتھ منوا رہی ہیں- یہ ڈاکٹر، انجنئیر کی حیثیت سے بھی اور یونیورسٹیز میں استاد کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہی ہیں، مغربی یونیورسٹیز میں فل برائٹ اسکالر شپ بھی حاصل کر رہی ہیں، میری طرح صحافت اور انسانی حقوق کی ایڈووکیسی کے میدان میں بھی موجود ہیں-
اس طبقے، اعلیٰ تعلیم اور بہترین پروفیشنل کیرئیر کے ساتھ میرے جیسی خاتون کے لئے قبائلی علاقے یا خیبرپختون خواہ کی اس لڑکی کے مسائل سمجھنا مشکل ہی نہیں تقریباً نا ممکن بھی ہے، جو پردہ اپنی مرضی سے نہیں کرتی بلکہ رواج کی وجہ سے اسے شٹل کاک جیسا برقع اوڑھنا پڑتا ہے اور جسے رواج کی وجہ سے، یا سڑکوں پر موجود جنسی ہراسانی کے ڈر سے اسکول کی تعلیم یا تو حاصل نہیں کرنے دی جاتی یا اس پر اتنی پابندیاں ہوتی ہیں کہ وہ سانس بھی نہیں لے سکتی- اگر تعلیم حاصل کر بھی لے تو اس لڑکی کی شادی میں اسکی رائے لینے کا سوچنا بھی گناہ کے مترادف ہے- ملک عزیز میں ایسے بھی علاقے موجود ہیں جہاں اگر کوئی لڑکی اپنے ماموں زاد منگیتر سے بات کرتے ہوے پکڑی گئی تو اسے برے کردار یہاں تک کے طوائف ہونے کے طعنے ملے-
جب اس لڑکی کے مسائل کی طرف توجہ دلوائی جاتی ہے تو مذہب کی علم بردار میرے جیسے privilaged (پتہ نہیں اسکے لئے اردو کا بہترین متبادل کیا ہو گا؟ استحقاق شدہ یا فوقیت زدہ؟) دینی بیک گراؤنڈ کی خاتون اسلام کا دفاع میں لگ جائے گی اور کلچر کو ہی کوسے گی کہ یہ شٹل کاک یا یہ پابندیاں مذہب کی لگائی ہوئی نہیں بلکہ یہ تو علاقے کا کلچر ہے جسکی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے- اور کچھ شاید آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ بیٹھیں کہ شٹل کاک تو بڑا اچھا پردہ ہے- ہمیں تو بڑا پسند ہے- شاید کسی کو یقین نہ آئے لیکن مجھے ہمیشہ شٹل کاک پہننے کا شوق رہا- اسکے لئے میں قبائلی علاقے یا افغانستان کا سفر کرنے کو بھی تیار ہوتی- لیکن کسی privilaged بیک گراؤنڈ کی دین پسند خاتون کا سیاحت کے شوق میں شٹل کاک پہننا اور بات ہے اور قبائلی علاقے یا طالبان کے افغانستان میں گلا گھوٹ دینے والے صنفی پابندیوں تلے زندگی گزارنا اور بات ہے- یہ بات میں کوئی تین سال پیشترخواتین ڈے پر چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھ چکی ہوں-
اس میں کوئی شک نہیں کے ان علاقوں کا کلچر ہے جسکے مطابق لڑکی اسکول نہیں جا سکتی، اسکی شادی میں اسکی رائے نہیں لی جاتی، شادی کے بعد سسرال اور شوہر اسکے ساتھ جو بھی تشدد کریں اسکے والدین اسے سسرال کا گھریلو اور میاں بیوی کا ذاتی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں-
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان غیر اسلامی کلچرل روایتوں کے معاملے میں مذہب کے علم برداروں کا کیا رویہ ہے؟
اگر کوئی بہت تگڑی پارٹی اپنی بیٹی کو اس تشدد سے بچانے کے لئے طلاق کروا دے تو ہمارے فتویٰ دینے والے اس علیحدگی کو شرعی نہیں مانتے اور فتویٰ دیتے ہیں کہ عورت ابھی تک پرانے شوہر کے عقد میں ہے کیونکہ اسلام شخصی ملکیت کا قائل ہے- عورت شوہر کی ملکیت ہوتی ہے عدالت کے جج کی نہیں جو وہ اسے طلاق دے سکتا ہے- انکے نزدیک اس لڑکی سے شادی زنا کے برابر ہے-
یاد رہے ایسا کوئی فتویٰ کبھی زبر دستی کی شادی کے خلاف نہیں آتا کہ لڑکی اور لڑکا دونوں کی مرضی کی اسلام میں نکاح کی بنیادی شرط ہے ورنہ نکاح نہیں ہوتا جو کچھ ہوتا ہے وہ زنا ہے-
دوسری طرف ایسے پروگریسو دینی سیاست دان موجود ہیں جو یہ ماننے کے باوجود کے ہمارے ہاں تشدد ہوتا ہے، اسکے خلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی کے خلاف ہیں- بجائے اس قانون کے کمزور حصوں پر کام کرنے کے سب سے بڑا اعتراض اس قانون پر یہ کیا گیا کہ یہ مغرب سے در آمد شدہ ہے اور اس سے ہمارا ملک بھی مغربی معاشرے کی برائیوں سے آلودہ ہو جائے گا- ہمارا خاندانی نظام کمزور ہو جائے گا-
شاید اسکی وجہہ یہ ہے کہ گھریلو تشدد پر قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی بیٹیوں کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں- انکی بیٹیاں یا تو شادی کے بعد بیرون ملک فرسٹ ورلڈ کا حصہ بن کرمغرب کے اخلاقی انحطاط سے براہ راست مستفید ہو رہی ہونگی یا سول سروس کا امتحان دیکر پاکستان کی بیوروکریسی کا حصہ بنیں گی یا پارلیمنٹ میں بیٹھیں گی- تمام صورتوں میں بہت حد تک اپنی قسمت کی خود مالک ہونگی-
کلچر کی بات آئ تو ایک اور قبیح رسم کا بھی ذکر ہو جائے جو شاید “سوارا” کہلاتی ہے (اگر میں غلط ہوں تو میری تصحیح کر دین) جس میں کوئی بھی لڑکا کسی بھی لڑکی کے گھر جا کر یہ اعلان کر دیگا کہ یہ میری منگ ہے- اسکے بعد کسی اور کے لئے اس لڑکی کا رشتہ لے کر جانا اول ذکر سے جان لیوا دشمنی مول لینے کے برابر ہو جاتا ہے- لڑکی کے والدین کو یا تو مجبوراً اسی بد قماش لڑکے سے لڑکی کی شادی کرنی پڑتی ہے یا پھر لڑکی کو ساری عمر اپنے گھر میں بٹھانا پڑتا ہے- اس رسم کے مطابق عورت صرف اپنے والدین یا شوہر کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ گاؤں کا ہر لڑکا اسے اپنی ملکیت یا جائداد سمجھتا ہے-
جنسی ہراسانی کے پیچھے بھی اصل میں یہی سوچ ہوتی ہے کہ ملکیت ہے- لیکن اس پر کبھی بعد میں اظہار خیال کریں گے- مگر بر سبیل تذکرہ یہ ضرور یاد دلاتی چلوں کے مفتی طارق مسعود تو اپنے بھول پن میں عورت کو شخصی ملکیت قرار دے دیا ہے- پدر سری سماج کے خلاف لبرل حلقے تو ہمیشہ سے دین پسندوں پر یہ “الزام” لگاتے تھے کہ یہ عورت کو اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں-
ایک priviliged دین پسند خاتون کی حیثیت سے پردہ میری عقل پر ایسا پڑا رہا کہ کبھی یہ بات سمجھ ہی نہ آئ کہ مغربی لبرل ایسا کیوں کہتے اور سمجھتے ہیں جبکہ میرا پردہ تو میری پروفیشنل کیرئیر کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا- نہ ہی کبھی میری تعلیم کی حوصلہ افزائی کرنے والے میرے والدین اور شوہر نے کبھی مجھے پراپرٹی سمجھا-
اب اول الذکر کی بات صحیح مانی جائے یا آخر الذکر کی، اسکا فیصلہ میں طارق مسعود کے فولوورز پر چھوڑتی ہوں-
خیر بات ہو رہی تھی سوارا جیسی قبیح رسم کی- کبھی کسی مذہبی جماعت کو اس قبیح رسم کے خلاف آواز اٹھاتے نہیں دیکھا- نہ ان علاقوں میں رہنے والے مذہبی رہنماؤں نے اسکا ذکر غلطی سے بھی کیا- اگر اس برائی کو سامنے لانے کی توفیق کسی کی ہوئی تو وہ اینٹرٹینمنٹ میڈیا ہے جس پر مذہب کے علم بردار صبح شام سب و شتم کرتے ہیں- ڈرامہ سنگ ماہ اسی غیر اسلامی قبیح رسم کے خلاف آگہی پھیلانے کے لئے بنایا گیا- کم بخت یقیناً مغرب کی فنڈنگ سے بنا ہوگا-
نور الہدیٰ شاہ وہ واحد مصنفہ ہیں جنہوں نے کلچر کے نام پر ان قبیح غیر اسلامی رسموں کو سامنے لانے کا آغاز کیا- میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ باجیوں نے جنہوں نے خلیل الرحمان قمر کے “میرے پاس تم ہو” پر ریویوز لکھ لکھ کر فیس بک کے چہرے کو کالا کر دیا کبھی نور الہدیٰ شاہ کے کسی ڈرامے کو اپنی ریویو کا موضوع بنایا ہو-
جوں ٢٠٢١ میں گھریلو تشدد کا مسئلہ نے میری وال پر ایک بحث کی شکل اختیار کی تو جدہ سے شریف اللہ محمد بھائی کی گواہی سامنے آئی کہ انکے علاقے میں (انکا تعلق کے پی کے ضلع صوابی سے ہے) خواتین ظالمانہ گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں- ویسے تو لڑکی کے والدین خاموش رہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے لیکن اگر کوئی علیحدگی کروا بھی لے تو فتوے کے مطابق ایسی لڑکی سے شادی زنا کے برابر ہے- یعنی گھریلو تشدد، تشدد کی صرف ایک تہہ ہے مذہبی طبقات کی collaboration سے اسے ایک سیف گارڈ فراہم کیا گیا ہے- یعنی گھریلو تشدد کی پریکٹس کی پوری حفاظت کا انتظام ہے- کہ اس ڈر سے کوئی باپ اپنی بیٹی کی علیحدگی کروانے کی ہمت نہ کرے کہ ان علاقوں میں شادی شدہ بیٹی کو گھر بٹھانا کانٹوں پر زندگی گزرنے کے مترادف ہے-
ایک اسلامی جماعت کے سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ گھریلو تشدد صوبہ کے پی کے میں ہی ہوتا ہے-
کیا اسے محض اتفاق سمجھا جائے کہ مذہبی جماعتوں کو سب سے زیادہ ووٹ بھی اسی صوبے سے ملتے ہیں؟
(براہ کرم فضول بحث سے بچنے کے لئے اور موضوع کو divert ہونے سے بچانے کے لئے براہ کرم جماعت کا نام مت پوچھیں-)
پھر یہی کہوں گی کہ کلچر کا لفظ بہانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے کلچر کو قائم رکھنے میں مذہبی طبقات کا بنیادی کردار ہے- لاکھوں کی تعداد میں مدرسے اور مساجد کے باوجود اگر مذہبی طبقات ان شرعی معاملات سے لا تعلقی اختیار کیے ہوئے ہیں تو اصل میں کلچر پر الزام غلط ہے- ظالمانہ نظام جس میں عورت کو انسان نہیں لونڈی کی طرح ملکیت یا ایک کموڈیٹی سمجھا جاتا ہے کو قائم اصل میں مذہبی طبقات نے کیا ہوا ہے کیونکہ وہ اس نظام کو کبھی خاموش رہ کر اور کبھی مغرب کی مخالفت کا بہانہ بنا کر سرپرستی کرتے ہیں–
جی ہاں قبائلی نظام یا کلچر کا لفظ ایک Euphemism (بری بات کو نرم الفاظ میں ادا کرنا) ہے- ورنہ ان روایات کا تحفظ در اصل مذہب کے نام پر ہی ہو رہا ہے اور مذہب کے نام لیوا ان روایات پر اس لئے خاموش ہیں کہ یہ سب انکی مرضی سے ہو رہا ہے-
پچھلی پوسٹ پر ایک اعتراض یہ سامنے آیا کہ آپ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیتی ہیں- ایک ساتھی نے بہت شائستہ انداز میں توجہ دلوائی کہ آپ سارے مذہبی لوگوں کے لئے ایسے الفاظ نہ کہیں- انکی یہ بات صحیح ہے کہ ملک میں ایسے پروگریسو مذہبی جماعتیں اور رہنما موجود ہیں جو اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں- ڈاکٹر، انجنیئر وکیل، فوج، ائیر فورس، فنانس، جرنلازم کے شعبوں میں تعلیم دلواتے ہیں- کچھ سی ایس ایس تک کرواتے ہیں- کچھ تومیرے والد کی طرح (یہ واضح کر دوں کہ میرے والد کا تعلق لیفٹ سے رہا ہے) اپنی بیٹی کو ملک سے باہر تعلیم دلوانے کے بھی خواہشمند ہوتے ہیں اور کچھ عملاً بھجوا بھی دیتے ہیں- سوال یہ ہے کہ ایسی پروگریسو مذہبی جماعتوں اور انکے کارکنان یا رہنماؤں کو ہم ان لوگوں کے ساتھ ایک ہی برش سے پینٹ کیوں کریں جو عورت کو شخصی ملکیت یا جائداد سمجھتے ہیں؟
میرے نزدیک اصل قصور ان مذہبی جماعتوں کا یہ ہے کہ یہ اس ظالمانہ کلچرل روایا ت کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھاتیں- ٹی وی پر بے حیائی ہو تو، گستاخی کا شک ہو جائے کسی پر تو یہ لاکھوں کروڑوں عوام کو سڑکوں پر لانے کی اہلیت رکھتی ہیں لیکن
پبلکلی عورت کو شخصی ملکیت کا درجہ دیا جا رہا ہو اور مدرسہ رشیدیہ، بنوری ٹاؤن، اور دار الافتاء فتوے دے رہے ہوں کہ آزاد عورت شادی کرنے کے بعد آزاد نہیں رہتی شخصی ملکیت یا جائداد بن جاتی ہے تو انکے کانوں پر جوں نہیں رینگتی-
یہ پروگریسو اصلاح پسند دینی حلقے اپنے کانوں کو لپیٹ کر حیا ڈے منا منا کر ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے پاکستان یا دین اسلام میں صرف یہی ایک دینی حکم رہ گیا ہے جس پر عمل نہیں ہوتا-
اب ملک کی پچاس فیصد آبادی کو علی العلان شخصی ملکیت قرار دینے والے بیانیوں پر خاموشی اختیار کرنا اور عشق نبی ص پر مر مٹنے کے دعوے- زیرے کو چھانیں اور اونٹ کو نگل جائیں اور حیا حیا کا شور بھی مچاتے رہیں کیونکہ کارکنان کو یہ تو یقین دلانا ہے کہ اسلام کے اصل رکھوالے ہم ہی ہیں-
پھر بھی شکایت ہے کہ ہم سب کو ایک ساتھ کیوں ہانکتے ہیں؟
