پردیس سے دیس از صوفیہ کاشف__________تبصرہ از شیما قاضی

یہ کتاب ہے یا ادھورے خوابوں، ٹوٹی امیدوں اور ناقابلِ برداشت حقیقتوں کی ایک پوٹلی ہے جو صوفیہ کاشف نے اپنے سر سے اتار کر لفافے میں بند کرکے مجھے بھیج دی ہے اب جو مجھ سے اٹھائی نہیں جاتی۔۔

میں یہ سوچ سوچ کر عجب اداس ہو جاتی ہوں کہ جب ایک بے بس ماں اپنے بے ہوش بیٹے کو گھر میں چھوڑ کر مدد کے لیے بھاگی ہوگی تو اس پر کیا گزری ہوگی؟ اسے اپنی ماں، اپنے گھر والے یاد آئے ہوں گے۔ اسے ہر وہ شخص یاد آیا ہوگا جو اس کا اپنا تھا اور پھر وہ ایک “آئیڈیل” زندگی چھوڑ کر انہی لوگوں میں رہنے کے لیے بھاگی بھاگی چلی آئی کہ وہ ان کے درمیان رہے گی تو محفوظ محسوس کرے گی مگر وہ غلط تھی۔۔ وہ امیدوں پر دیس لوٹنے والی عورت غلط تھی کیونکہ وہاں اگر وہ اپنوں کی غیر موجودگی میں اکیلی تھی تو یہاں ان کے ہوتے ہوئے بھی اکیلی تھی۔۔ کس قدر عجیب اور دکھ کی بات ہے نا؟


مجھے “پردیس سے دیس” کے آخری اوراق پڑھتے ہوئے لگا کہ چلو ٹھیک ہے وہ یہاں سے رنجیدہ دل تو گئی مگر جو جیسا وہ کرنا چاہتی تھی کر کے چلی گئی۔ اپنے گھر کا وہ سامان جو ان کا کل اثاثہ تھا ان کو محفوظ ہاتھوں میں دے کر چلی گئی۔۔ مگر اتنا دکھ ہوا کہ دل رونے لگا۔۔۔ کہ کیوں؟ یہی حل کیوں تھا کہ ان کے سامان کی نیلامی ہی کی جائے۔۔۔ اک دھچکا لگا کہ ایسا ہی کیوں ہونا تھا؟

مگر خیر۔۔۔ شاید یہی زندگی ہے۔۔ جہاں ہمیں ہمارے کیوں کا جواب کبھی نہیں ملتا۔۔ مگر پھر بھی جیے جانا ہی اک حل ہے۔۔ اک روایت ہے۔۔۔ کچھ لوگوں کے پاس فرار کا راستہ ہوتا ہے سو وہ حقیقت سے منہ چھپا کر نکل لیتے ہیں مگر کچھ لوگوں کے پاس وہ راستہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ فرار اختیار کرلیں۔۔

سو اب سمجھ نہیں آتی صوفیہ آپی! کہ آپ کو خوش قسمت کہوں کہ نہیں؟ کہ آپ کے پاس کم از کم وہ راستہ تو ہے جو ہر پاکستانی کے پاس نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے آپ ڈھیروں اُمیدیں لے کر دیس لوٹی تھیں مگر آپ کو واپس جانے کے بعد پھر سے شروعات کا موقع تو ملا۔۔ ان لوگوں کا کیا جو یہاں جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔۔۔ بس رہ رہے ہیں۔۔۔۔

~شیما قاضی

2 Comments

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.