حیا ڈے مبارک باجیو!______تزئین فرید

باجیوں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے؟ حیا ڈے مبارک!!

تزئین حسن
کوئی دو دھائیاں پیشتر طالب الہاشمی کی تذکار صحابیات پڑھنے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر حیرت ہوئ کہ ایک ایک صحابیہ رضی الله نے ماشا الله پانچ پانچ چھ چھ  مرتبہ نکاح کی سنت کی سعادت حاصل کی- یہ سوچ کر تعجب ہوتا ہے کہ اس دور کی عورت سماجی لحاظ سے کتنی طاقت ور تھی کہ مرضی سے نکاح کرنے کے علاوہ اسے گھر سے نکل کر پانچ وقت مسجد جاکر نماز پڑھنے کا حق حاصل تھا-

اسے مسجد میں حاضر ہو کر آنحضرت اور بعد ازاں خلفاء راشدین سے اپنی روز مرہ کی زندگی، حکومت کے معاملات، قانون سازی پر بات کرنے کا حق تھا- وہ اپنے دینی رہنما سے آ کر اپنے باپ کی شکایت کر سکتی تھی کہ میرے باپ نے میرا نکاح مجھ سے پوچھے بغیر کر دیا ہے. کیا یہ نکاح  جائز ہے؟ یعنی اپنے گھریلو معاملات وہ کسی مقتدر فرد یا عدالت کے پاس لے جا سکتی تھی-
وہ اپنے دینی رہنما سے یہ سوال کر سکتی تھی کہ قران کیا صرف مردوں کے لئے اترا ہے؟ اور قران بھی اس سوال پر خاموش نہیں رہتا تھا- وہ بھرپور طریقے سے اس امر کو واضح کرتا تھا کہ مرد ہو یا عورت- افضل وہ ہے جو الله سے زیادہ ڈرتا ہے-

اس دور کی عورت معاشرت میں کتنا حصہ لیتی تھی اسکا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ ایک خاتون آنحضرت ص سے سوال کرتی ہیں کہ وہ عدت میں ہیں اور انہیں کوئی صاحب آکر کھیت میں کام کرنے سے روکتے ہیں- کیا انہیں یہ کام نہیں کرنا چاہئے-

آنحضرت ص نہ صرف انہیں معاش کی اس بنیادی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امید ہے تم جو کچھ کماؤ گی اس میں سے انفاق سبیل الله بھی کرو گی-

ایک اور خاتون آنحضرت ص سے پانی پر واقع ایک  شہر کی فتح کی بشارت سن کر، ان سے اس جہاد میں شرکت کی دعا کی درخواست کرتی ہیں- اور آنحضرت ص یہ کہنے کے بجائے کے ایک عورت کا جہاد سے کیا کام، اسی وقت دعا کرتے ہیں-

قبرص کے جزیرے پر ام حرام رضی الله تعالیٰ کی قبر مبارک کی موجودگی قیامت تک اس دعا کے مقبول ہونے کی گواہی دیتی رہے گی-

کاش کوئی افغان طالبان کو قران، سیرت اور سیرت صحابہ کے واقعات سنا کر قائل کر سکتا کہ عورت بھی انسان ہوتی ہے- اسے بھی الله نے مرد کی طرح ہاتھ، پیر، آنکھ، کان اور عقل دی ہے- 

حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کے زوال کے دوران مولوی کہلانے والے اس طبقے نے عورتوں کی یعنی امت مسلمہ کی پچاس فیصد آبادی کی ایجنسی بالکل ختم کر دی ہے- وہ خود اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتی- اس پر اتنے دباؤ ہیں کہ وہ خود پر گزرنے والی روداد کا کھل کر اظہار نہیں کر سکتی-

ازدواجی زندگی سے متعلق جتنے لطیفے بنتے ہیں سب مردوں کے بنائے ہوۓ ہوتے ہیں-  جن میں عورت اپنے شوہر کو بیلن سے پیٹتی ہوئی نظر آتی ہے کبھی برتن دھلواتی ہوئی- خود عورتوں کی اور خصوصاً مذہبی عورت کی عقل پر ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ ایسے لطیفے سن کر محظوظ ہوتی ہیں-

کچھ عرصے پیشتر ایک مقبول اور معروف موتیوشنل اسپیکر کا بیان سننے کا اتفاق ہوا جنکا کہنا تھا کہ عورتیں STEM مضامین کو پڑھنے کی قابلیت نہیں رکھتیں-

اسٹیم یعنی سائنس ٹیکنالوجی انجینئیرنگ اور میتھمیٹکس۔ پڑھے لکھے دینی گھرانوں کے بچے اور بڑے بڑی تعداد میں ان حضرت  سے مستفید ہوتے ہیں اور انکے نظریات سے متاثر ہوتے ہیں-

ایک اور موٹیوشنل اسپیکر کو دیکھا کہ بھرے مجمعے میں یہ بتا رہے ہیں کہ عورت دلیل کو نہیں سمجھتی، دماغ سے کام لے ہی نہیں سکتی- اس لئے اس کو کسی چیز کے لئے راضی  کرنہ ہو تو دلیل کو ایک طرف رکھ  دیں- حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ یہ باتیں ایک سائنسی اصول کی طرح بتا رہے ہیں-

کل محترم ڈاکٹر اسد رضوان کی پوسٹ کسی نے ڈالی کہ ازدواجی رشتے میں گھر کے اندر عورت پر جنسی، جسمانی اور ذہنی ٹارچر کیا جا رہا ہے-

تبصروں میں لوگوں کا کہنا تھا کہ عورتوں کی اکثریت خصوصاً ان عورتوں کی جنھیں عورت کا دائرہ کار انکا گھر ہے کہہ کر تعلیم اور معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں کے لئے گھر سے نہیں نکلنے دیا جاتا، اپنے خلاف ہونے والے اس ٹارچر سے اپنے والدین، ڈاکٹر، یا کسی کو بھی آگاہ نہیں کر سکتی- اس پر طرح طرح کے دباؤ ہیں- شرم و حیا، روایتی مذہبی اور معاشرتی بیانیہ عورت کو منہہ سے آواز نکالنے سے روکتا ہے- 

میرا یہ کہنا ہے کہ پڑھی لکھی لڑکی اور بہت سی صورتوں میں لڑکوں کو بھی اپنے اوپر ہونے والی جنسی زیادتیوں پر شرم و حیا اور اور بے عزت ہونے، عزت لٹنے جیسے بیانیے کو بنیاد بنا کر بولنے نہیں دیا جاتا۔

روایتی مذہبی بیانیہ یہ کہتا ہے کہ شوہر اور سسرال والوں کے ہر ظلم کے مقابلے میں صبر کرو- شکایات کرنے والی عورت جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گی- طرح طرح کی موضوع احادیث گھڑی گئی ہیں تاکہ عورت کو دبایا جا سکے-

ایک حدیث کے بارے میں مولانا طارق مسعود نے حال ہی میں بتایا کہ یہ حدیث موضوع ہے- اس حدیث کے مطابق اگر بیوی اپنے بیمار شوہر کا خون اور پیپ چوس چوس کر بھی صاف کرے تو بھی وہ اپنے شوہر کا حق ادا نہیں کر سکتی-

ایک دفعہ میری وال پر ایک مباحثے کے دوران ایک عالمہ نے مذکورہ حدیث کا حوالہ دیا تو میرا ان سے یہ پوچھنا تھا کہ وہ حق تو ادا نہیں کر سکتی لیکن کیا شریعت کے مطابق ایسے بیمار شوہر سے عورت کو علیحدگی اختیار کرنے کا حق ہے؟ اس پر انھیں مرے مرے لہجے میں اقرار کرنا پڑا کہ ہاں-

اب ایسے بیانیوں کے مطابق علیحدگی اختیار کرنا جائز ہے لیکن خدمت کے باوجود حق ادا نہیں ہو سکتا- ایسے بیانیہ ہماری عائلی زندگی کو کس نہج پر لی جانا چاہتے ہیں اسکا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتی ہوں-

یہی ملینز کی فولوؤنگ رکھنے والے طارق مسعود جو اس حدیث کو موضوع قرار دے رہے ہیں ، عدالت کے ذریعے فسخ نکاح کے قائل نہیں- انکا ایک درس کوئی تین سال پیشتر سنا تھا- نام لئے بغیر میں نے اسے اپنے ایک مضمون “تمہارا جنازہ ہی اٹھے گا’ میں مذکور کیا-

نام لینے کا مطلب خود اپنے آپ کو متنازعہ بنا لینا ہے کیونکہ لوگ جن میں اکثریت ایسے مولویوں کو فولو کرنے والے مردوں کی ہے دلیل کو نہیں دیکھتے بلکہ انکا خیال ہوتا ہے کہ انکے مولوی یا مولویانی باجی پر ذاتی حملہ کیا گیا ہے-

مولانا کی رائے میں بیوی شوہر کی ملکیت ہے- عدالت اسے طلاق نہیں دے سکتی- (وڈیو نیچے کمنٹ میں)- انکا کہنا ہے کہ اسلام شخصی حقوق کا قائل ہے- مطلب شخصی حقوق صرف مرد کے ہوتے ہیں کیونکہ انکی نظر میں عورت تو انسان ہی نہیں- اس لئے عورت اگر کسی مرد کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو بھی عدالت اسکی علیحدگی نہیں کروا سکتی-

کوئی اس غلط فہمی کا شکار نہ رہے کہ یہ صرف ایک مولوی کی رائے ہے-  یہ ایک پورا  مکتبہ فکر ہے۔ بنوری ٹاؤن جامعہ الرشید دار الا فتاء  ہر جگہ پاکستان میں سنیوں کے سب سے بڑے فقہہ کی نمائندگی کرنے والے یہی رائے رکھتے ہیں۔

چند سال قبل میری وال پر اس مسئلے پر بحث ہوئی تو کسی نے مفتی تقی عثمانی جیسے اعتدال پسند سمجھے جانے والے مذہبی اسکالر کا ایک پمفلٹ انبوکس میں شئیر کیا- مولانا تقی  نے سیرت کے ان تمام واقعات کا تذکرہ کرتے ہوۓ جس میں آنحضرت ص نے عورتوں کی مرضی پر صرف یہ کہہ کر علیحدگی کروائی کہ تمہیں مہر واپس کرنا ہوگا، عورت کے اس حق کو کہ وہ عدالت کے ذریعے شوہر سے علیحدگی لے سکتی ہے، مسترد کیا-

حضرت بریرا رضی الله تعالیٰ اورانکے غلام شوہر کے بارے میں مولانا تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ وہ چونکہ آزاد ہو گئ تھیں اس لئے انکی مرضی تھی کہ وہ غلام شوہر کے ساتھ رہنا نہ چاہیں تو نہ رہیں- یعنی ایک آزاد کردہ لونڈی کے  پاس تو یہ حق ہے کہ وہ شوہر سے علیحدہ ہو جائے لیکن ایک آزاد عورت شادی کے بعد عملاً ان مولویوں کی نظر میں لونڈی بن جاتی ہے-   

ان مولوی حضرات کے فقہہ کے مطابق عورت ایک دفعہ شادی کرنے کے بعد آزاد ہونے کا حق کھو دیتی ہے- یعنی انکی خواھشات کے مطابق عورت کی حیثیت شادی کے بعد ایک لونڈی جیسی ہوتی ہے- اب اگر آج کی لڑکی یہ حالات دیکھتے ہوئے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرے کہ وہ لونڈی نہیں آزاد عورت رہنا چاہتی ہے تو یہ حضرات میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو الزام دیں گے-   

میری رائے میں پاکستانی لڑکیوں میں کبھی شادی کا رواج اگر ختم ہوا تو اسکی ذمہ داری اسلام کی ان تعبیرات پر ہوگی جسکے تحت یہ مولوی آزاد عورت کو لونڈی کی حیثیت دلوانا چاہتے ہیں-  

ایک روایت اور تواتر سے سنائی جاتی ہے اور آج کی عورت کو بتایا جاتا ہے تمھارے لئے آئیڈیل یہی ہے- روایت کے مطابق حضرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ کی مرتے وقت وصیت تھی کہ انکا جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ کسی نا محرم پر انکی نظر نہ پڑے- سوچنے والی بات ہے کہ اس دور میں خواتین حج کیا کرتی تھیں. اس وقت تو یہ مسئلہ زیر بحث نہ آیا کہ حج کے سفر کے دوران کسی نا محرم کی نگاہ عورت پر نہ پڑ جائے- پانچ وقت نماز کے لئے بڑی تعداد میں خواتین مسجد نبوی میں آتی تھیں، انھیں بھی نا محرم پر نظر پڑنے کا اندیشہ نہیں تھا- پھر چلیں اگر مسجد میں نماز اور حج سے ہٹ کر دیکھیں تو کیا امہات المومنین قضائے حاجت کے لئے بھی گھر سے نہیں نکلتی ہونگی؟
صحابیات کرام ص پر لاکھوں کروڑوں درود اور سلام- حقیقت یہ ہے کہ اس دور کی عورت سماجی لحاظ سے بہت طاقت ور تھی- ہمارے زوال کی ایک بنیادی وجہ اس عورت سے اسکی ایجنسی چھین لینا ہے جسے اس امت کی آئندہ نسلوں کو پروان چڑھانا ہے-

نوٹ: سب سے زیادہ تنقید اس پوسٹ پر ان باجیوں کی طرف سے ہوگی جو خود تو اپنی بیٹیوں کو میڈیکل پڑھاتی ہیں، بہو ڈھونڈتی ہیں تو ڈاکٹر ڈھونڈتی ہیں  لیکن بتول زہرا رضی الله تعالیٰ کے نقش قدم کا حوالہ دیکر پاکستان کی باقی عورتوں کو “عورت کا دائرہ کار اسکا گھر ہے،” کہہ کر گھروں میں بھجوانے کے عزائم  کا پبلکلی اظہار کرتی ہیں-

باجیوں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے؟ حیا ڈے مبارک!!

2 Comments

  1. ایک اہم موضوع پر بہترین تحریر۔

    امرتا پریتم نے کہا تھا، مرد نے ابھی تک عورت کے ساتھ صرف سونا سیکھا ہے، جاگنا نہیں۔

    بِنتِ حوا کو سماج، حکومت، ثقافت اور تہذیب کے روایتی معاشی و معاشرتی اور اختیار و دسترس کی پدر سری بُنیادوں پر قائم شدہ ڈھانچوں کا سہارا لئے بغیر خود کے لئے سوچنا ہو گا۔ اپنے دائرۂ کار کی حقیقت پر مبنی پہچان، تبدیلی کے مقصد کے تعین، ہم کار و ہمدرد سپورٹ سٹرکچر اور مسلسل کوشش، تعلیم، تربیت اور سرگرمیوں کے ذریعے۔

    تب ہی ابنِ آدم، اِنسان بنیں گے، اور نسلیں سنورنے لگیں گی۔

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.