صوفیہ کاشف صاحبہ کے سفر نامے_________لعل خان



آپ اگر پاکستانی بلاگرز اور سوشل ایشوز پر لکھنے والوں کی فہرست بنائیں تو پہلے چند ناموں میں سے ایک صوفیہ کاشف ہوں گی ۔ میری ان سے بالمشافہ کوئی ملاقات نہیں ہے مگر 2016 سے میں انہیں سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر فالو کر رہا ہوں ۔ کسی شخصیت کو مکمل طور پر جاننے کا دعوی کوئی بھی نہیں کر سکتا البتہ چند برسوں کی ڈیجیٹل جان پہچان سے ایک عدد رائے ضرور قائم کی جا سکتی ہے مگر میں تاحال اس میں بھی ناکام رہا ہوں ۔ یہ ابتدا میں مجھے صرف ایک اوورسیز پاکستانی لگتی تھیں جنہیں اپنے ملک اور معاشرے میں اس لیے کیڑے نظر آتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس آپشنز موجود ہوتے ہیں ۔ میں اس بات کا برملا اظہار بھی کرتا تھا اور یہ کبھی مجھے “بچہ” سمجھ کر نظر انداز کر دیتی تھیں اور کبھی کبھار تھوڑی طبیعت صاف بھی کر دیتی تھیں۔ پھر ایک دن مجھے ان کی طرف سے “گہر ہونے تک” کی شکل میں ایک کتاب بطور تحفہ موصول ہوئی ۔ کتاب نوآموز لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لکھی گئی تھی ۔ مجھے اس دن پتا چلا ۔۔۔میں ریسرچ اور لکھنے کی تکنیک میں ان سے کہیں زیادہ پیچھے ہوں ۔ میں آج بھی لکھنے کے شوقین لوگوں کو “گہر ہونے تک ” پڑھنے کا کہتا ہوں ۔ رائے تھوڑی سی تبدیل ہوئی اور اب میں انہیں پروفیشنل رائٹر سمجھنے لگا مگر ان کی فیس بک پوسٹس پر لان گملے اور کھڑکیوں کے پردے اب بھی انہیں خالص گھریلو عورت بتاتے تھے جس کی سوچ گھر کی سجاوٹ شوہر کی پسند نا پسند اور بچوں کی دیکھ بھال سے آگے نہیں جا سکتی ، پھر پتا چلا کہ یہ بہت مشہور بلاگر ہیں انہیں فوٹوگرافی کا شوق بھی ہے ، ان دنوں یو ٹیوب پر ان کی ایک ویڈیو بھی ٹھیک ٹھاک وائرل ہو گئی تھی تو یہ بھی جان لیا خیر سے یو ٹیوب پر بھی ایکٹو ہیں ، ویب سائٹ بھی چلاتی ہیں اور وہاں دوسروں کو لکھنے کا موقع بھی دیتی ہیں ۔ رائے پھر بدل گئی ، اوورسیز پاکستانی سے پروفیشنل رائٹر مگر گھریلو خاتون سے بڑھ کر یہ سوشل ایکٹیوسٹ محسوس ہونے لگیں ۔ پھر دھیرے دھیرے ان کی پاکستانی معاشرے پر تنقید بڑھنے لگی اور یہ پھر اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان میں آدھے سے زیادہ مرد عورت کا جنسی استحصال کرتے ہیں ،اس بات پر بھی ہمارے بیچ کمنٹ سیکشن میں تلخ کلامی ہوئی تھی ۔ مگر پھر وہی ہوا جو اب تک ہوتا آیا تھا ۔ ان کا سفر نامہ “پردیس سے دیس ” قسط وار آنا شروع ہو گیا اور میں ایک مرتبہ پھر مخمصے میں پڑ گیا ۔ یہ سفر نامہ میرے لیے ایک ایسا آئینہ تھا جس میں اپنی شکل دیکھنا مجھے گوارا نہیں تھا مگر آئینہ معاف نہیں کرتا اسے توڑ دیں تب بھی شکل تو نظر آتی ہے ۔ میں شرمندہ ہو گیا ، ایک ایسی خاتون وہ بھی صوفیہ کاشف صاحبہ جیسی جو ابو ظہبی سے پاکستان سیٹل ہونے کے ساتھ نجانے کیسی کیسی امیدیں اور تمنائیں لے کر آئی تھی اور آئی بھی اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں پورے ملک کی کریم رہتی ہے پھر بھی اسے جان مال اور عزت کا تحفظ نصیب نہیں ہوا تو پھر وہ کیسے اس ملک کے سسٹم اور معاشرے کی تعریف کر سکتی ہے ۔ اسلام آباد ہمارا دار الحکومت ہے اور وہاں پر قانون غائب نظر آئے تو پھر کوئٹہ پشاور اور کراچی کی وکالت آپ کیسے کر سکتے ہیں ۔ میں اس کے بعد خاموش ہو گیا اور میرا ان سے ہر طرح کا نظریاتی اختلاف ختم ہو گیا ۔ پھر کچھ نجی معاملات کی وجہ سے میں سوشل میڈیا سے غائب رہا ، کچھ دن پہلے فیس بک جوائن کی اور صوفیہ جی کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی ، اور آج ان کے سفر ناموں پر مبنی کتاب میرے ہاتھ میں ہے ۔

آپ نے اس سے پہلے سفر نامے پڑھ رکھے ہوں گے ، سفر ناموں میں زیادہ تر سیر و تفریح اور رومانس پڑھنے کو ملتا ہے ۔ نئے لوگ نئے مزاج نئی بولیاں مختلف طرز معاشرت رہن سہن یہ سب سفر ناموں کا حصہ ہوتے ہیں ۔ صوفیہ جی کے سفر نامے اس لحاظ سے منفرد اور دلچسپ ہیں کہ اس میں میری آپ کی اور ہمارے معاشرے کی شکل نظر آتی ہے ۔ نئے لوگ نہیں ملتے دوست احباب اور خونی رشتہ دار اجنبی بن کر ملتے ہیں ، رومانس نہیں ملتا عزت کے تحفظ کی فکر ملتی ہے ، نئی بولیاں نہیں ملتیں اپنی میٹھی بولیوں میں چھپی ہوئی کڑواہٹ ملتی ہے ۔ بس ایک موسم ہے جو شاید اس سفر نامے میں روایت کے مطابق ملتا ہے کہ آپ جب بھی کسی نئی جگہ پر جاتے ہیں تو نئے موسم تو ملتے ہیں اور وہ سفر ناموں کا حصہ ہوتے ہیں ۔ صوفیہ کاشف نے جس درد میں ڈوب کر یہ سفر نامہ لکھا ہے اس کے بعد اسے پڑھنا اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔ میں کہیں کہیں تو واقعی بہت افسردہ ہوا مگر کہیں کہیں میری ہنسی بھی نکل گئی کہ میں جتنا بھی صوفیہ جی کے غم میں شریک ہونے کی کوشش کر لوں ،رہوں گا تو پاکستانی ہی اور ہم پاکستانی ایسے مصائب کو پچھلے اٹھتر برسوں سے ہنسی میں اڑاتے چلے آئے ہیں ۔
لو جی یہ بھی کوئی بات ہے کہ دارلحکومت کے ایک پوش ایریا میں رہنے والے مالک مکان نے مکان دکھانے سے پہلے باتھ روم سے فضلہ صاف نہیں کیا ۔
اور یہ کیا بات ہے کہ ایک مرد صرف بنیان پہن کر عورت کے سامنے نہیں آ سکتا ۔
یہ بھی کوئی مصیبت ہے کہ مالک مکان کا بھائی یہ جانتے ہوئے بھی کہ عورت کا میاں گھر نہیں ہے وہ گھر میں گھس آئے اور نہایت بے شرمی سے صوفے پر ٹانگیں پسار کر بیٹھ جائے ۔۔۔اسے روک کر احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کیا ضرورت تھی ،پھر وہ کیا کرتا بھائی سے کہہ کر گھر خالی بھی نہ کرواتا ۔
اور یہ گھریلو ملازمین بیچارے بھی کوئی قابل تنقید مخلوق ہیں بھلے یہ آپ کے منہ پر تھپڑ مار کر چلے جائیں آپ کو انہیں برداشت کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک میں غریب عاجزی انکساری اخلاق اور محنت خلوص اور ایمانداری سے غربت کا مقابلہ کیوں کرے جب اس کے پاس غربت سے لڑنے کے لیے بدمعاشی چوری چکاری غنڈہ گردی اور منافقت جھوٹ فراڈ جیسے قیمتی مواقع موجود ہوں ۔
اور یہ آوارہ کتوں والی خوب کہی ، آپ نے وہ قصہ نہیں سنا جس میں طوائف آوارہ کتے کو پانی پلا کر جنت کا ٹکٹ پا لیتی ہے ۔ اب سوچئے کہ اگر اسے وہ کتا نہ ملتا تو بے چاری دوزخ میں سڑتی رہتی ۔ٹھیک ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہروں میں آئے دن ایسے کتوں کی وجہ سے کچھ اموات واقع ہو جاتی ہیں اور کہیں بیماریاں وغیرہ بھی پھیل جاتی ہیں مگر جنت میں جانے کے لیے ہم اتنی سی قربانی بھی نہ دیں ۔
اور یہ کیا ہر وقت آپ قاعدہ قوانین سسٹم کی تسبیحات کرتی رہتی ہیں ۔ اس طرح تو پھر ملازم اور مالک دونوں لائن میں لگ جائیں گے امیر غریب کا فرق مٹنا شروع ہو جائے گا عدل و انصاف جنم لینے لگے گا عورتیں اور بچے کھلے عام گھروں سے باہر نکلنا شروع ہو جائیں گے پولیس والے بیس روپے کی قربانی دے کر چالان کاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ بگڑے ہوئے امیر ذادے اپنی گاڑی کی ٹکر سے پوری فیملی کو کیسے کچل سکیں گے اور سب سے خطرناک بات آپ جیسے اوورسیز لوگوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو جائے گی۔۔۔۔اس طرح تو ملک کا پورا سسٹم تباہ ہو جائے گا۔

اور میں آپ کی جرات کو سلام نہ پیش کروں کہ آپ نے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں ساس سسر دیور جیٹھانیوں خالاوں پھپھیوں نندوں بھاوجوں کی اجازت لیے بنا ہی ادھر کا رخ کر لیا اور میں قربان جاوں کاشف میاں پر جو اس جرم میں آپ کے ساتھ برابر کے شریک ہو گئے ۔ ذرا اپنی منطق تو دیکھیں ، میاں ابو ظہبی میں ہیں میکہ اور سسرال رحیم یار خان میں ہے اور آپ اکیلی اپنے بچوں کے ساتھ اسلام آباد میں سیٹل ہونا چاہتی ہیں ۔ کیا سمجھتی ہیں آپ اپنے آپ کو ، بہت بڑی توپ چیز ہیں ۔ ہوتا ہو گا آپ کو اسلام آباد پسند ، مرتی ہوں گی آپ وہاں کے موسموں پر ،لگتا ہو گا آپ کو کہ آپ کے بچے دار الحکومت کے مہنگے اسکولوں میں پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں گے ، لے لی ہو گی آپ نے اپنے میاں سے اجازت ، ہو گی آپ کو یہ غلط فہمی کہ آپ پڑھی لکھی باشعور اور خود مختار شادی شدہ عورت ہیں اور اپنے بچوں کو میکے اور سسرال کی مدد کے بغیر بھی اکیلی اپنے دم پر پال پوس سکتی ہیں مگر آپ کو یہ کسی نے نہیں بتایا کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ یہاں امریکی مالک مکان کا پاکستانی بھائی بھی شوہر کی غیر موجودگی میں زبردستی سہارا بننے آ جاتا ہے ، یہاں کرنل صاحب طلاق یافتہ عورت کو اچھی سوسائٹی میں نہیں رہنے دیتے ، یہاں اکیلی عورت کو کمزور سمجھ کر لبرٹی لینے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر اس پر بہتان لگائے جاتے ہیں ۔ یہاں اڑوس پڑوس والیاں اکیلی عورت کے گھر میں تانک جھانک کرتی ہیں اور کچھ نہ ملنے پر جھنجھلا کر جو منہ میں آئے بول دیتی ہیں ۔ اور پھر خاندان والوں کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ آپ پر کیچڑ اچھالیں ، بھئی جو عورت سانس بھی خاندان کے مردوں کی اجازت سے لیتی ہے وہ آپ کو اسلام آباد میں اکیلا رہتے دیکھ کر آپ کو سات توپوں کی سلامی تو نہیں دے گی ۔
آپ کو سب سے پہلے اپنے دونوں خاندانوں سے اجازت لینی چاہیے تھی بھلے اس میں دس برس اور کیوں نہ لگ جاتے ۔ پھر آپ کو سیدھا رحیم یار خان جانا تھا اور سب کی منت تر لے کرنے تھے کہ میں آپ کی اجازت سے آ تو گئی ہوں مگر میں ٹھہری اکیلی لاچار عورت ، ٹھیک ہے میرے پاس ڈگریاں ہیں قابلیت ہے حوصلہ ہے کردار ہے اور ہماری کمائی درہم میں ہے مگر ہوں تو عورت ۔۔۔۔مہربانی فرما کر مجھے یہاں سیٹل کرنے میں میری مدد کریں آپ کو جھولیاں بھر بھر کے دعائیں دوں گی ۔ اس کے بعد پھر اگر خاندان والے جلی کٹی سناتے تو شاید میں بھی سوچتا کہ کچھ تو غلط ہوا ہے آپ کے ساتھ ۔ اکیلے اپنے دم پر سب کچھ کرنا چاہتی ہیں اور پھر یہ شکوہ بھی کرتی ہیں کہ خاندان والے اور دوست احباب جلے دلوں کے پھپھولے پھوڑتے ہیں ۔

تو میں ایک سچا پاکستانی ہوں اس سرزمین اور یہاں کے لوگوں سے پیار کرتا ہوں اور یہاں کے قاعدے اور قانون کے سامنے پوری دنیا کے قوانین کو چائے کم پانی سمجھتا ہوں اس لیے میرا تبصرہ تو ایسا ہی ہو گا ۔ میں کیسے آپ کو برحق کہہ سکتا ہوں جب مجھے پتا ہے کہ میری بیوی اگر اکیلی اسلام آباد میں رہنے کی بات کرے تو میرے گھر پہنچنے سے پہلے اس کے دونوں بھائی اور باپ پہنچ جائیں گے اور اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے ۔ تو مجھے ایسی شعور والی باتیں ہضم نہیں ہوتیں اور میں بلاوجہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں ۔ ہمیں اپنے ملک میں باشعور عورت نہیں چاہیے کیوں کہ ہر بات پر سوال اٹھانے لگتی ہے اور پھر مجبوری میں اسے چپ کروانے کے لیے اس کا شعور زبردستی اس سے چھیننا پڑتا ہے ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں کہ کاشف میاں سچے پاکستانی نہیں ہیں ورنہ آپ کے سفر نامے مجھ تک نہ پہنچتے ۔۔۔۔آپ خود جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتیں ۔کہتی ہیں میری پائی پائی جوڑا گھر میرے اپنوں نے نیلام کر ڈالا۔۔۔۔یہاں اپنے اپنوں کی عزتیں نیلام کر دیتے ہیں آپ کا تو صرف سامان اور اس سے جڑے کچھ فرسودہ سے جزبات نیلام ہوئے ہیں ۔ آپ ایک قصہ بھی ملاحظہ فرما لیں

کسی ریاست کا بادشاہ سیر کو نکلا ، دریا کے کنارے پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ لوگ تیر کر دریا پار کرنے کی کوشش میں ڈوب رہے ہیں ، وزیر سے پوچھا یہ دوسرے کنارے کیوں پہنچنا چاہتے ہیں وزیر نے کہا جناب دوسری طرف جنگل میں لکڑی اور شکار ہے جس کے لیے یہ جانا چاہتے ہیں ۔ بادشاہ نے پل بنانے کا حکم دے دیا ۔ پل بن گیا مگر کوئی بادشاہ کا شکریہ ادا کرنے نہیں آیا بادشاہ کو غصہ آ گیا اس نے پل پار کرنے پر ٹیکس عائد کر دیا ، رعایا ٹیکس دینے لگی مگر بادشاہ کے پاس پھر بھی کوئی نہیں آیا ۔ بادشاہ کا غصہ اور بڑھ گیا اس نے ٹیکس کے ساتھ دو جوتے لگوانا بھی شروع کر دیا ۔اب اسے پکا یقین تھا کہ رعایا شکایتیں لے کر اس کے پاس آئے گی اور رعایا محل کے سامنے جمع ہو بھی گئی ۔ بادشاہ مسکراتا ہوا کروفر کے ساتھ رعایا کے سامنے پہنچا اور کہا ۔
“بولو ۔۔۔کیا حاجت ہے “
رعایا میں سے ایک آدمی بطور لیڈر سامنے آیا اور فرمانے لگا ۔
“بادشاہ سلامت ۔۔۔پل پہ رش بہت زیادہ ہوتا ہے اور جوتے لگانے والا صرف ایک آدمی ہے جس وجہ سے دیر ہو جاتی ہے ۔۔۔مہربانی فرما کر جوتے لگانے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیں تا کہ رعایا کا قیمتی وقت بچ سکے “

صوفیہ جی ہم من حیث القوم نہ شکریہ ادا کرتے ہیں نہ شکایت کرتے ہیں بس ہم سے انتظار نہیں ہوتا ۔ ہم چاہتے ہیں ہمارے ساتھ جو مرضی کر لو بس تھوڑی جلدی کر لو ۔ اور اس میں ہمارا قصور بھی نہیں ہے ۔ ملک کے اسی فیصد لوگوں نے آج تک ہوائی جہاز پر سفر کرنا درکنار اندر سے ایئر پورٹ تک نہیں دیکھا تو ابو ظہبی سے پاکستان کا سفر نامہ اپنے اندر کتنے سنگین مسائل سموئے ہوئے ہے اور کتنے سوالات کھڑے کر رہا ہے اس سے انہیں کیا فرق پڑنا ہے ۔ آپ نے آٹھ مہینے اسلام آباد کے پوش ایریا میں کرنل اور بریگیڈیئر کی بیویوں کے ساتھ گزار کر بھی ہمت ہار دی ہے ، آپ اگر وہاں سے نکل کر سچی مچی والے پاکستان اور پاکستانیوں کو دیکھتیں تو آپ کا تو خدانخواستہ دماغی توازن بھی بگڑ سکتا تھا ۔ آپ نے تو پاکستان کو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں دیکھا پھر بھی آپ کا یہ حال ہو گیا مگر مجھے دیکھیں اور میرے ساتھ میرے سچے کھرے اور وفادار چوبیس کروڑ پاکستانیوں کو دیکھیں جن کے پاس اس ملک میں رہنے کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں ہے مگر ہم تب بھی سوال نہیں اٹھاتے ، جس گھر میں ہمیشہ رہنا ہمارا مقدر ہے اسے یوں ہی چلتے رہنے دینا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں مفت میں عزت اور تحفظ کے ساتھ دریا پار نہیں کرنا ۔۔۔ہمیں بس دریا پار کرنا ہے پھر چاہے ہم سے ٹیکس لے لو اور ساتھ دو جوتے بھی لگا لو ۔

سفر حجاز پر نور سفر ہے اسے پڑھتے وقت بے اختیار ان گلیوں میں جانے کو دل مچلنے لگتا ہے جہاں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلا کرتے تھے ، اس مٹی کو چومنے کو دل کرتا ہے جس پرمیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پڑتے تھے ۔۔۔۔سفر حجاز اس پاک ارادے کو مضبوط کر دیتا ہے جو ہر مومن مسلمان اپنے دل میں کر کے جیتا رہتا ہے ۔ اللہ تعالی روضہ اقدس میں آپ کی حاضری قبول و منظور فرمائے اور مجھے بھی اس قابل بنائے کہ میں اس نیک ارادے کو اپنی زندگی میں پورا کر پاوں ۔ آمین

مسکراتے رہیں

_____________لعل خان

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.