تعبیر

چلو اک نظم کہیں اس پر
جو کھڑکیوں کے باہر
ٹھنڈی تیز ہواوں کے بیچ
گھومتی پھرتی جدائی ہے
آسماں پر جو کالی
گھنگھور گھٹا کے پیچھے
کڑکتی ہوئی پیاس ہے
بارش کو ترستی ذمین
جو بوندوں کی طلب میں
کئی کئی تہوں میں
اکھڑ گئی ہے

چلو اک نظم کہیں
بل کھاتے شور مچاتے درختوں پر
جنکے ماتم آسماں سر پر اٹھائے ہیں
نظم کہیں ان پھولوں پر

بہار کی خوشبو کی آس میں
تہہ اوس جل گئے ہیں جو
چلو اک نظم کہیں
کہ اس بھیگتے منظرنامے میں
ابابیلیں سر ملاتی پھرتی ہیں
کالی گھٹا سے سوکھی ذمیں تک
ہر اک در کھلا ہے
اک نظم کہیں کہ خوابوں سا منظر
تکمیل پانے والا ہے!

_________________

صوفیہ کاشف
31 جنوری
،2024

4 Comments

  1. ہوا کی تُندی و تیزی
    گھٹا کی سُرمگیں وحشت
    برستی بارشوں کی شدتِ وارفتگی سے
    خُشک آنکھوں کی نمیدہ اور رنجیدہ اُمیدوں تک
    ہماری عُمرِ رفتہ ایک ایسی سرزمیں محسوس ہوتی ہے
    کہ جس کی پیاس پیہم ہے
    اگرچہ سب میسر بھی، مکمل بھی
    مگر احساسِ محرومی
    نگاہوں سے ارادوں تک
    جھلکتا ہے

    ہماری زندگی کے ہر قدم پر
    چاہتوں، دریافتوں اور سب اُمنگوں میں
    حسین منظر
    جواں سوچیں
    یقیں رشتے
    کمالِ فن کو چھوتے لفظ اور جُملوں کی خوشبو ہے
    پھر اس پر رنگ ہے تُم سے جُڑی یادوں کی خُوش کن سی بہاروں کا

    مگر، یہ کیا
    بدلتے وقت کے ہر پل میں
    یہ سب موسموں کے ارتقاء کی نذر ہو کر
    سمندر کے کنارے ریت کی مانند
    ہر اگلی لہر کی اُفتادگی کا رِزق بن کر رہ گیا ہے

    تو اب یہ سوچنا ہے
    اِن برق رفتار لمحوں، منظروں اور خوشبوؤں کو
    بھیگتی منظر نگاری کو
    ابابیلوں کے جُھرمٹ کو
    گھٹاؤں سے زمیں تک سب دروں کو
    اور خوابوں کو
    دِلوں کی لوحِ ماضی پر
    منقش کر لیا جائے
    مُجسم کر لیا جائے

    سو منظر ڈوبنے سے کُچھ ذرا پہلے
    تعلق ٹوٹںے سے قبل
    ہم
    یادوں کی محفل پر
    چلو اِک نظم کہتے ہیں

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.