خواب اور تعبیر _______صوفیہ کاشف

پائلوکائلو نے کہا تھا

“ جب تم کسی چیز کی خواہش کرو تو تمام   کائنات اسے حاصل کرنے  میں تمھاری مدد کرنے لگتی ہے!”

اسی لائن کو بالی وڈ نے اپنی فلم میں  شاہ رخ خان کے منہ سے بالکل لفظی ترجمہ کے ساتھ پنچ لائن کے طور پر پیش کیا اور ہندی اور اردو کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا

اگرچہ بالی وڈ نے اس بات کو انتہائی ڈرامائی اور رومانوی انداز میں پیش کیا مگر اس سے اس بات کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان کی سوچ،خیال،شوق، محبت اس کے آنے والے مستقبل کا رستہ ہموار کرتی ہے۔

اس میں کوئی دوسری بات نہیں کہ یہ لائن بہت ہی خوبصورت ہے جو انسان کو ڈھیروں طاقت اور تحریک دیتی ہے۔

مگر یہ لائن دراصل کسقدر طاقتور ہے؟

یہ حقیقت ہے بھی کہ نہیں

کیا یہ محض ایک خوبصورت لائن ہے یا واقعی یہ ذندگی گزارنے  میں ایک اہم عنصر ہے۔؟

خود پائلو کائلو کی ذندگی اس کی عملی تفسیر رہی ہے۔ساری عمر کتاب لکھنے کے خواب دیکھنے والا پائلو کائلو نے اپنے باپ سے کتنی ماریں کھائیں یہ شاید پائلو کائیلو کو شوق سے پڑھنے والے بھی نہیں جانتے۔

اس کی اس خواہش کو اسقدر بڑا خبط سمجھا گیا کہ کئی کئی بار اسے پاگلوں کے ہسپتال منتقل کیا گیا تا کہ اس کا علاج ہو سکے اور وہ نارمل انسانوں کی طرح کوئی ذریعہ روزگار ڈھونڈنے کے قابل ہو سکے۔

مگر جو خواب پائلو کی پلکوں پر ہمیشہ سے جڑا اور پنپتا رہا وہ آخر ہزارہا تکالیف کے بعد بھی اپنی منزل تک پہنچا۔ظاہری طور پر حالات اس کے مخالف مگر دراصل اس کے خوابوں کی تعبیر کا مشکل سفر طے کرتے رہے۔۔اور آج پائلو کائیلو کی کتابیں  ساری دنیا میں پڑھی جاتی ہے۔

 ۔

بہت سارے لوگ پائلوکائلو سے اس لئے خار کھاتے ہیں کہ اس کی ساری فلاسفی کلاسیک ادب اور مسلم صوفیا سے ادھار لئ گئی ہے۔یہ سچ ہے مگر اس میں کوئی حرج بھی نہیں کہ آخر انہیں لوگوں نے بیسویں اور اکسویں صدی کے لوگوں کو ان علما اور صوفیا کا علم پھر سے یاد کروایا ہے جن کا ذکر ان کے اپنے معاشرے  اور لوگ تک بھلا چکے تھے۔انہیں صوفیا سے فلسفہ اور روحانیت  مستعار لے کر لکھنے والوں نے بیسویں اور اکسویں صدی میں روحانیت کو مقبول ترین موضوع بنا کر پوری دنیا کو رومی اور ابن عربی،سے واقف کروایا جبکہ اس مقبولیت کو ہندوستان نے ہوگا اور میڈیٹیشن کے ذریعے خوب کیش کیا۔پائلو کائیلو تو اپنی کتابوں میں بلند و بانگ طریقے سے رومی کا نام لیکر اس کے اقوال پیش کرتا ہے۔

سڈنی شیلڈن کے بچپن سے کوئی واقف ہے؟ سڈنی شیلڈن جو اسکول میں بھی نظمیں اور کہانیاں لکھتا تھا،ڈرامے بناتا اور پیش کرنے کی کوشش کرتا تھا۔کتنے لوگ جانتے ہیں کہ سڈنی  کی ذندگی میں  مصنف بننا کتنا  ناممکن خواب تھا۔مگر وہ روزگار کی چکی میں پستا اپنے خوابوں کو زخم کی طرح سینے میں چھپائے ان سے ڈرتا اور جھجکتا  رہا مگر کائنات نے گھیر گھار کر اس کے خواب کئی آسکر  سمیت اس کی جھولی میں الٹ دئیے۔ 

میں نے اپنی ذندگی میں بہت بار یہ تجربات دیکھے ہیں جب انسان خواب دیکھتا دیکھتا دراصل اپنے خوابوں کی منزل پر جا پہنچتا ہے

آپ نے بھی بہت بار دیکھا ہو گا کہ اکثر لوگ جس خواب کے عشق میں مبتلا ہو جائیں وہ ان کی ذندگی کا سچ بن کر رہتا ہے۔

مگر یہ ہوتا کس طرح ہے؟

اس کے لئے اپنے خوابوں سے عشق کرنا پڑتا ہے۔

ان میں جینا پڑتا ہے

صرف کاپی یا ڈائری کے پہلے صفحہ پر لکھ لینے سے کہ آپ نے ذندگی میں یہ بن  جانا ہے خواب کی تعبیر نہیں ہو جاتی۔

آپ کو اس خواب کو کروشیا کی طرح اپنی پلکوں سے بننا پڑتا ہے۔

مثلا آپ نے سوچا دیکھا کہ آپ ایک دن محبت کی سرزمین  پیرس جا کر بس جائیں گے۔

لیں جی ہو گیا خواب؟

نہیں ہوا!

جب تک کہ آپ نے نیوز فیڈ میں آنے والی ہر فرانس کی تصویر اور خبر میں دلچسپی نہ لی

جب تک فرانس کی کرنسی،زبان،رہن سہن،روایت ،فیشن سے آپ نے آگاہی نہ کی

جب تک آپ نے یو ٹیوب ،ایپلیکشن،فلموں اور گانوں سے فرانسیسی ذبان سیکھنے کی کوشش نہ کی۔

اس سے بھی ضروری ہے خود کو فرانسیسی محسوس کرنا۔خود کو فرانس کی گلیوں میں کھڑے دیکھنا،خود کو اس علاقے میں جیتے دیکھنا اور دیکھتے رہنا ۔

جیسے جیسے آپ ان تمام عشق کی منازل سے نبرد آزما ہوتے چلے جائیں گے آہستہ آہستہ آپ کو خود وہ رستے اور مواقع نظر آنے لگیں گے جو پیرس کی طرف جاتے ہیں

وہ دروازے جو فرانس میں کھلتے ہیں

مگر دروازہ کھلنے سے پہلے کھڑکی کھلنا بہت ضروری ہے۔آپکا پیرس سے عشق وہ کھڑکی ہے جو بلآخر دروازے تک لے جاتا ہے۔

پندرہ سولہ سال پہلے میں ایک کالج میں پڑھا رہی تھی۔  میرے ساتھ ہی میرا کولیگ بی بی سی لہجے میں انگلش بولتا تھا۔جس شہر کے اساتذہ کو بھی انگلش لہجہ نہیں آتا تھا وہاں وہ اصل بی بی سی لہجے میں اسقدر ثقیل انگلش بولتا کہ ہم اس کا منہ تکتے رہ جاتے۔

بی بی سی کی آڈیوز کیسٹ سے ہم نے بھی بہت پریکٹس کی تھی مگر ہم سے یہ کام نہ ہو سکا تھا۔اس زمانے میں جب نہ گوگل تھا نہ اینڈروائیڈ فون۔جب  انگلش سیکھنے کا واحد ذریعہ خموش کتابیں،کچھ ٹی وی چینل یا لے دے کے وہ استاد تھے جن کا اپنا لہجہ اور انداز بھی مکمل دیسی تھا۔ایسے زمانے میں ایک  چھوٹے سے شہر کے  بندے نے برطانوی لہجے میں انگلش سیکھ لی تھی۔

وہ چند ہی سالوں میں انگلینڈ جا بسا تھا ایسے جیسے اسے انگلینڈ کے لئے ہی پیدا کیا گیا تھا۔

ہم کبھی کبھار اپنے آس پاس ایسے لڑکے لڑکیاں دیکھتے ہیں جو ہیرو یا ہیروئیں،یا گلوکار بننا چاہتے ہیں

وہ چلتے پھرتے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر ایکٹنگ کرنے لگتے ہیں

باتھ روم میں ہی کنسرٹ شروع کر دیتے ہیں

اپنے پسندیدہ اداکار کی نقل کر کر کے نہیں تھکتے

اور آپ نے دیکھا ہو گا

کہ اکثر ایک دن وہ بڑے اداکار بن جاتے ہیں

ترکی کا مشہور مصنف اورحان پاموک بہت مزے سے داستان سناتا ہے کہ کیسے اس کا بچپن کمرے کی دیواروں پر مناظر چلتے دیکھتے گزرا۔اس کے تخیل کی پروازیں ہر وقت اسے کسی تخیلاتی دنیا میں مگن رکھتیں مگر اس کے باوجود اس کی فیملی اسے انجینئرنگ کی طرف دھکیلتی رہی۔خواب اور عقل کے بیچ لٹکتا اورحان پاموک بلآجر انجینیرنگ کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر نکلا اور ناول لکھ کر دم لیا۔

قلم اور کتاب سے عشق کرنے والا اورحاں آج بھی گھنٹوں کتاب اور قلم میں گزارتا ہے۔کتاب ہی اس کی محبوبہ اور قلم ہی اس کا سارا رومانس رہا۔جو انسان جس طرح کے طرز ذندگی سے پیار کرتا ہے وہ خود بخود خود کو اس میں ڈھالتا چلا جاتا ہے۔

 نوجوان ذندگی میں جو بننے کا آرزو مند ہو وہ خود بخود بنتا چلا جاتا ہے بشرطیکہ آرزو محبت سے بھی بڑھ کر ہو۔

آپ اپنی ذندگی کو اپنی خواہشات کی طرح ترتیب دیتے چلے جاتے ہیں

ذندگی خود بخود آپ کے لئے راستے وسیع کرتی چلے جاتی ہے۔

۔

یہی اس دنیا کے ہر انسان کی کہانی ہے۔آج آپ کہاں ہیں؟

کامیاب ہیں کہ ناکام؟

اپنے اندر کے عشق کو ٹتول کر دیکھیں

کہیں ساری عمر کسی ناکام انسان کا بت بنا کر تو نہیں پوجتے رہے؟

کامیاب ہیں تو ذرا مڑ کر دیکھیں

آپ نے کتنی بار بند اور کھلی آنکھوں سے اپنے آج کے خواب دیکھے ہونگے۔

کل آپ کو کہاں جانا ہے اس کا فیصلہ آج ہی کر لئیں

کیونکہ خالی کاغز پر لکھ لینے سے کائنات آپ کی آرزو پڑھ نہیں سکتی۔آپکو آرزو میں جی کر اسے سمجھانا ہو گا کہ آپ کو کدھر جانا ہے۔

اور اس کے بعد یہی کائنات آپ کو پالکی پر بٹھا کر اپنے خواب کی طرف لے چلے گی۔

11 Comments

    1. حیرت ہے۔یہ ٹحریر کوئی سال پہلے لکھی گئی تھی اور ڈان سے ریجیکٹ ہو گئی تھی۔کل مجھے نظر آئی تو میں نے لگانی دی۔حیرت انگیز طور پر لوگوں کو بہت پسند آئی۔

      Liked by 1 person

      1. Where can I buy your book in Canada? I can pay with my credit card or pay pal. Also with crypto. Aap ki tahrir ka shidat se intezar rahta hi. Bachu ki shadyan ho gein. Grand parents bhi ben gye. Weekend bachu ke sath guzarta hi. Kobi cat بلا bhi hi. Hope you and your family are doing well

        Liked by 1 person

        1. کتاب میں آپکی دلچسپی کا شکریہ!ملل سے باہر بی نے کا فیالاحال میرا کوئی انتظام نہیں ہے۔پاکستان آنا ہو تو ضرور ملیں آپکو کتاب مل جائے گی۔آپکی خوشگوار مکمل پرسکون زندگی کا جان کا اچھا لگا۔خدا آپکو مزید سکھ دکھائے!
          کتاب ذندگی کے باب سیدھے کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ الفاظ لکھنے کا نہ وقت نکلتا ہے نہ طاقت۔
          پھر بھی آپ جیسے کچھ پڑھنے والے کچھ لکھنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں خدا آپکو جزا دے! دعاوں میں یاد رکھیں!۔

          Liked by 2 people

          1. میں آپ کے یو ٹیوب ریویو دیکھ رھا ہوں۔ جو جو کی دونوں کتابیں، The discomfort of evening، SAPINAS
            By
            Mr Harari
            بہت شاندار ریویو
            ماشاءاللہ

            Liked by 2 people

          2. بہت شکریہ! آپکی ذرہ نوازی ہے۔مجھے آپ تھوڑی مزید مدد کر سکتے ہیں کینیڈا میں گزرے اپنے تجربات و مشاہدات میں شریک کر کے۔میں جاننا چاہتی ہوں کہ کینیڈا میں رہ کر جہاں پر ہمارے جیسے ایشیائی ممالک کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک کلچرل شاکس موجود ہوتے ہیں وہاں آپ نے فیملی کے ساتھ کن کن چیلنجز کا سامنا کیا اور ان میں سے کتنے میں کامیاب ٹھہرے اور کہاں پر آپکو لگتا ہے آپ ناکام رہے۔
            آپ اپنے تجربات و مشاہدات یہاں بھی تحریر کر سکتے ہیں اور diyafatimakashif@gmail.com پر بھی بھیج سکتے ہیں ۔
            پیشگی شکریہ!

            Liked by 1 person

  1. میری زندگی کی سب سے خوبصورت تحریر۔ ماشاء الله میرے پاس الفاظ نہیں کہ کیسے تعریف کروں۔

    ‎جب تم کسی چیز کی خواہش کرو تو تمام   کائنات اسے حاصل کرنے  میں تمھاری مدد کرنے لگتی ہے۔
    ساری عمر کتاب لکھنے کے خواب دیکھنے والا پائلو کائلو نے اپنے باپ سے کتنی ماریں کھائیں یہ شاید پائلو کائیلو کو شوق سے پڑھنے والے بھی نہیں جانتے۔
    اس کی اس خواہش کو اسقدر بڑا خبط سمجھا گیا کہ کئی کئی بار اسے پاگلوں کے ہسپتال منتقل کیا گیا تا کہ اس کا علاج ہو سکے اور وہ نارمل انسانوں کی طرح کوئی ذریعہ روزگار ڈھونڈنے کے قابل ہو سکے۔
    ‎مگر جو خواب پائلو کی پلکوں پر ہمیشہ سے جڑا اور پنپتا رہا وہ آخر ہزارہا تکالیف کے بعد بھی اپنی منزل تک پہنچا۔ظاہری طور پر حالات اس کے مخالف مگر دراصل اس کے خوابوں کی تعبیر کا مشکل سفر طے کرتے رہے۔۔اور آج پائلو کائیلو کی کتابیں  ساری دنیا میں پڑھی جاتی ہے۔
    سڈنی شیلڈن جو اسکول میں بھی نظمیں اور کہانیاں لکھتا تھا،ڈرامے بناتا اور پیش کرنے کی کوشش کرتا تھا۔کتنے لوگ جانتے ہیں کہ سڈنی  کی ذندگی میں  مصنف بننا کتنا  ناممکن خواب تھا۔مگر وہ روزگار کی چکی میں پستا اپنے خوابوں کو زخم کی طرح سینے میں چھپائے ان سے ڈرتا اور جھجکتا  رہا مگر کائنات نے گھیر گھار کر اس کے خواب کئی آسکر  سمیت اس کی جھولی میں الٹ دئیے۔ 
    ‎آپ نے بھی بہت بار دیکھا ہو گا کہ اکثر لوگ جس خواب کے عشق میں مبتلا ہو جائیں وہ ان کی ذندگی کا سچ بن کر رہتا ہے۔
    ‎مگر یہ ہوتا کس طرح ہے؟
    ‎اس کے لئے اپنے خوابوں سے عشق کرنا پڑتا ہے۔ ان میں جینا پڑتا ہے
    ‎قلم اور کتاب سے عشق کرنے والا اورحاں آج بھی گھنٹوں کتاب اور قلم میں گزارتا ہے۔کتاب ہی اس کی محبوبہ اور قلم ہی اس کا سارا رومانس رہا۔جو انسان جس طرح کے طرز ذندگی سے پیار کرتا ہے وہ خود بخود خود کو اس میں ڈھالتا چلا جاتا ہے۔
    صرف کاپی یا ڈائری کے پہلے صفحہ پر لکھ لینے سے کہ آپ نے ذندگی میں یہ بن  جانا ہے خواب کی تعبیر نہیں ہو جاتی۔
    آپ کو اس خواب کو کروشیا کی طرح اپنی پلکوں سے بننا پڑتا ہے۔
    آپ نے کتنی بار بند اور کھلی آنکھوں سے اپنے آج کے خواب دیکھے ہونگے۔
    کل آپ کو کہاں جانا ہے اس کا فیصلہ آج ہی کر لئیں
    کیونکہ خالی کاغز پر لکھ لینے سے کائنات آپ کی آرزو پڑھ نہیں سکتی۔آپکو آرزو میں جی کر اسے سمجھانا ہو گا کہ آپ کو کدھر جانا ہے۔
    اور اس کے بعد یہی کائنات آپ کو پالکی پر بٹھا کر اپنے خواب کی طرف لے چلے گی۔

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.