کھڑکیاں اور اکتوبر __________صوفیہ کاشف

کھڑکی کے باہر ایک پوری دنیا آباد ہوتی ہے! چاہے وہ کمرے کی کھڑکی ہو جو باہر آپکے لان میں کھلتی ہو،یا باہر کی طرف کھلنے والی دوسری کھڑکی ہو جو سڑک کی طرف کھلتی ہو۔میری یہ کھڑکی باہر ٹیرس پر کھلتی ہے جس پر میرا سجایا ہوا پورا باغ نظر آتا ہے۔یہ چھوٹا ہے مگر میرے لئے پورا باغ ہی ہے جسے میں دو سال سے محنت سے سیج رہی ہوں۔میری شدید خواہش ہے کہ یہ  ایک دن پھولوں اور بیلوں سے بھر جائے ایسے کہ پتے سنبھالنے مشکل ہو جائیں۔مگر گملوں میں پودے بہت دھیرے دھیرے بڑھتے ہیں۔اور پودوں کو بڑھنے کے لئے ہماری طرح ہی عمریں چاہیے ہوتی ہیں پھر جب وہ  محدود سے گملے کی محدود سی مٹی  کی حدوں میں قید ہوں تو اور بھی ذیادہ  عمرچاہیے ۔ ۔ہوا اور غذائیت ذرا ذرا سی آتی ہوں۔
میں اس کھڑکی کے سامنے سارا سارا دن بیٹھ کر اس کے باہر چلتی خزاں کی ٹھنڈی ہوا کو پتوں سے اٹھکھیلیاں کرتے دیکھ سکتی ہوں۔ان کی سرگوشیاں دھیرے دھیرے میری روح میں ایسا سکون اتارتی ہیں جو موبائل کی اسکرین کی چمکتی روشنیوں سے اور رنگ برنگے بہروپ بھرے لوگوں سے  کبھی نہیں مل سکتا۔خوبصورت سبز پتے دھیرے دھیرے رنگ بدلتے ہرے سے پیلے اور پیلے سے خاکی ہوتے،چرمراتے گرتے جا رہے ہیں۔پیچھے کھڑا چنار کا طویل قامت درخت روز اپنے ڈھیروں زرد پتوں کا سڑک پر قالین بچھا دیتا ہے۔یہ کھڑکی مجھے خزاں کے لمحے لمحے کی خبر دینے کے قابل ہے۔مگر اس کے لئے مجھے اس کے سامنے بیٹھنا پڑتا ہے۔شاید بہت کم لوگ کھڑکیوں کے سامنے بیٹھنا اور ڈھلتے دن اور ابھرتی صبح کا نظارہ کرنا پسند کرتے ہیں۔اپنی چالیس پلس سالہ ذندگی میں میں نے دیکھا ہے چالیس کی دہائی بہت مشکل ہے مگر بہت خوبصورت بھی ہے۔یہ وہ عمر ہے جب موسم ،پھول پتے،ہوا سب ہم سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور ہمیں انکی سنگت میں رہنا محبوب ہو جاتا ہے۔جب ذندگی کی دھیمی رفتار وہ لطف دیتی ہے جو جوانی کی رولر رائس جیسی رفتار کبھی دے نہیں پاتی۔تیزرفتاری میں خوفناک حادثات مقدر بن سکتے ہیں مگر دھیرے دھیرے چلنا دراصل دور تک چلنے ،گہرائی تک اترنے کا ایک منترا ہے۔یہ پانی کی دھیمی لہروں پر ایک فلوٹر پر لیٹے سو جانے جیسا ہے!
کھڑکیاں میری زندگی کا  اہم عشق رہا ہے اس نے ہمیشہ میرا تعلق باہر کی دنیا سے جوڑے رکھا ہے۔
میرے کمرے میں ہر دھوپ اور ہوا،طلوع اور غروب اسی کھڑکی کے رستے اترا ہے اگرچہ بہت سے لوگ اس اہم چیز کی ذندگی میں اہمیت سے ناواقف ہیں
پاکستان کے اندر لڑکی یا عورت کے کھڑکی کے قریب ہونے کو اس کے کردار کی خرابی جانا جاتا ہے کیونکہ مشہور زمانہ سوچ کے مطابق وہ کھڑکی سے لڑکوں یا آدمیوں کو دیکھتی یا تاڑتی ہے۔اس زمین کے عوام کی اکثریت عورت کو ایک مرد کے لئے ترسی ہوئی مخلوق سمجھتی ہے جسکی پوری ذندگی سوائے کھڑکی سے مردوں یا لڑکوں کو دیکھنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔نجانے یہ معاشرہ ایک نارمل انسانی دنیا اور سوچ سے کتنے نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے؟
مجھے  دبئی میں اپنے گھر کی کھڑکی یاد آتی ہے جو میرے لاوینج سے باہر بالکنی پر کھلتی تھی اور اسے میں نے بڑے بڑے گملوں کے ساتھ بیلوں اور ماورا کے پھولوں سے بھر لیا تھا۔لاونج کے دیوار سائز شیشے کے پیچھے پہلے میں نے تین چار ایکسٹرا میٹرس رکھ کر ایک ڈے بیڈ بنایا  جہاں میں سارا دن بیٹھ کر اپنی بالکنی میں کھلے خوبصورت پھول اور دھیرے دھیرے ہلتے پتے دیکھ سکتی تھی۔جب ماورا پر پھول کھلتے میں اسی بیڈ پر کھڑکی کھولے سو جاتی اور ساری رات مہکتے لاؤنج میں ماورا کی  رقص کرتی خوشبو سے مہکتے خواب دیکھتی۔
انہیں دنوں کا ایک کلپ بھی میں نے اپنے ٹیرس
کا بنا رکھا ہے
فرصت سے انسان کھڑکی کے سامنے بیٹھا ہو،کھڑکی کے باہر درختوں اور پتوں سے بھرا منظر ہو جس میں ہواوں سے بھری زرد ٹھنڈی ہوا اتری ہو جس میں گرتے پتوں کا شور اور چلتی ہوا کی سیٹیاں گونجتی ہوں۔۔۔۔ذندگی پڑھنے کو بس یہی ایک منظر کافی ہے پھر انساں کو کہانیوں کی طلب نہیں رہتی!
میری  کھڑکی کے باہر بھی آجکل اکتوبر کی خزاں اتری ہے جومیرے تخیل کے جیسا مکمل اور بھرپور منظر  تو نہیں  دیتی مگر اگر آپ میں قطرے میں قلزم دیکھنے کی صلاحیت ہو تو خزاں کا حسن ایک پودے پر بھی نظر آ جاتا ہے۔میرے پاس تو الحمداللہ ادھورا سہی مگر پورا ایک منظر ہے۔میں بھلا خدا کی دی نعمتوں کو کیسے جھٹلا سکتی ہوں۔
رومینٹک منظر نگاری سے اگر آپکو عشق ہو تو سورہ الرحمن سے بڑھکر قدرتی حسن شاید آپکو اور کہیں نہ ملے ,امجد اسلام امجد سے لیکر رابرٹ فراسٹ اور ورڈزورتھ تک!شاعری کی لے دیکھنی ہو تو انسان،رحمان ,,البیان،رومان،ریحان کے آہنگ کا،صوتی تاثرات کا کوئی جواب نہیں۔اور منظر نگاری دیکھنی ہو تو دنیا کے حسین ترین نظارے اور ذکر اس ایک سورت میں موجود ہیں۔جنت کا اور اللہ کی تمام تر نعمتوں کا مکمل ذکر بیان کیا گیا ہے۔کبھی کبھی میں سوچتی ہوں جنت کیا ہے؟ تو یہ سمجھنے کا ایک بہت خوبصورت طریقہ میں نے سمجھا ہے۔اس دنیا کی ہر خوبصورت جگہ،ہر خوبصورت لمحہ اور جزبہ،محبت اور توجہ،خوبصورت خیال اور اعلی ترین زبان ،خوبصورت سے خوبصورت ترین چیز،پھل ،پھول درخت،اور بہترین سے بہتر  محبت کرنے والے امن امان والے سچے اور کھرے لوگ،نیاگرا فال،وینس کی نہر،ترکی کے سمندر،سوئٹزرلینڈ کے لالہ زار ایک جگہ اکٹھے کر دئیے جائیں ،مدہوش موسموں،زرخیز باغوں  اور  بہترین خوبیوں کے ساتھ  تو جنت کا تصور مکمل ہو جاتا ہے۔اور اس تصور میں سے جو کچھ نکالا جائے وہ سب ایک دوسری سمت اکٹھا کر دیا جائے تو خودبخود ایک جہنم جنم لے لیتی ہے جو کبھی کبھی ہمیں ہمارے معاشرے میں علاقے میں اتری محسوس ہوتی ہے کہ یہاں دنیا جہاں کی بدصورتیاں اکٹھی ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔۔
مناظر،رحمتوں اور نعمتوں کے حسن سے بھری سورہ رحمان  اور بیچ بیچ میں ایک وفا کےطالب محبوب کا گلہ!
کیسےچھوڑ کر جاو گے
کیسے بھلا پاو گے؟
!
“اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاو گے”؟
اور تم؟
کون کونسی؟
جھٹلاو گے؟؟؟؟
اور تم!!!

اسلام آباد کے ایک علاقے میں اپنے پرانے گھر کی کھڑکیاں جس میں میں نے آٹھ ماہ گزارے۔جس کی ہر کھڑکی سے ایک خوبصورت منظر نظر آتا تھا۔اور موسم اسلام آباد کے ہوں تین چار سال پہلے جیسے جب ہر دوسرے دن بارش ایک فطری بات لگتی ہوں اور دو دو دن تک چلنے والی بوندا باندی کمروں کو برفیلی کئے رکھتی ہو مگر نظر کی بھوک ہو کہ کھڑکی سے یہ برستی بارش دیکھ دیکھ نہ تھکتی ہو۔ موسم بھی بہت دغاباز نکلے۔ہمارے اس ذمیں پر اترتے ہی رنگ بدلنے لگے!۔
مجھے پاکستان میں رہتے کبھی کبھی یہ فکر رہتی ہے کہ کھڑکی میں کھڑی مجھے دیکھ کر شاید ہر گزرتا مرد یہی سوچتا ہو گا چاہے وہ مزدور ہو کہ بزنس مین کہ میں اسے تکتی ہوں۔۔۔۔۔یہ ہمارے معاشرے کے افراد کولگی ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں انسان سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا ہمارے گرد گھومتی ہے۔مگر چونکہ اکثریت واسطہ بالواسطہ طور پر اس پر اعتقاد رکھتی ہے اس لئے اسے بیماری نہیں سمجھتی۔یہی سوچ کبھی کبھی پاکستانی کھڑکی سے تھوڑا گھبراہٹ کا شکار کر دیتی ہے۔
مگر ایسا بھی نہیں کہ باہر دھوپ اور بارش ہوا اور پتوں سے سرگوشیاں بند کر دوں۔باہر  آج کے جیسا کوئی خوبصورت موسم اترا ہو ،نم نم بارش ہو،نرم گرم  بدلیاں ہوں اور ٹھنڈی ہوائیں ہوں تو محض موسموں سے عشق ہی ہر طرح کی سوچ کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے اور میں کھڑکی سے نکل کر ٹیرس پر آ جاتی ہوں،کبھی کبھی تو برستی بارش میں بھی آکر ،اگر بازو پھیلا کر چہرہ نہیں بھگو سکتی تو کم سے کم ٹیرس پر آ کر پوری بارش میں بیٹھ جاتی ہوں،برستی بارش کے بیچ میں جو آس پاس کا رم جھم نظارہ ہے وہ کتنوں نے دیکھ رکھا ہے؟ دیکھا ہے تواسے جزب کر رکھا ہے؟ اس نظارے کے سامنے دنیا کی ہر فکر ہر سوچ ہر پریشانی بے معنی ہے۔محض برستی بارش میں نکلیں،اور خود کو رم جھم  میں گھرا دیکھیں,دھواں دھار قطروں کا شور سنیں،مٹی کی خوشبو سونگھیں اور پھر مجھے بتائیں آپکو کیسا لگتا ہے؟

تصاویر کے لئے

وڈیو کے لئے


(جاری ہے)۔

___________________

صوفیہ کاشف

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.