“وہ دادا کی کارمینہ چُرانا
وہ دادی کے ہاتھوں کے پراٹھے اُڑانا
وہ نانی کے گھر سے موٹے ہو کے آنا
وہ امّی کا مجھکو گڑیا بلانا
وہ بابا کی لاڈی پہ ہنستے جانا
وہ چاچو کے باغیچے سے امرود لانا
وہ لمبی راہداری سے ہاتھوں کو پھیلائے آ آ آ… کر کے گزرنا
وہ کھڑکی والے ٹی وی پہ “چاچا جی” کی باتیں
وہ محلے کی گلیوں میں سائیکل چلانا
وہ چاچا بختو کی کلفی کھانا
وہ ٹیوٹر کے آتے ہی چُھپ جانا
وہ سٹاپو
وہ کوکلا
وہ آنکھ مچولی کی کہانی ___
عمر کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے
رویوں کے پتھروں سے ٹھوکر لگی تو
یونہی ذرا
تھک کر رُکی تو
وہ ساری کہانی جو بچپن کے تھیلے میں
مَیں نے سنبھالی
جانے کہاں سے
کمرے میں میرے بکھری پڑی ہے.”
(عظمیٰ طور)
—————-
فوٹوگرافی و کور ڈیزائن:صوفیہ کاشف
